آزادی، سرمایہ اور نفس کی خواہشات کا فریب

آزادی: لبرل فکر میں

آزادی، لبرل فکر میں، لامحدود خواہشات کے حصول اور ان کی تسکین کا نام ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کا ذریعہ سرمایہ ہے۔ معاشیات کے مطابق جتنے زیادہ وسائل (سرمایہ) میسر ہوں، اتنا ہی زیادہ انسان اپنی خواہشات پوری کر سکتا ہے۔ اس تصور کے تحت آزادی میں اضافہ سرمایہ بڑھانے سے مشروط ہے، اور یہی سرمایہ آزادی کی عملی شکل بن جاتا ہے۔ تین سو سالہ مغربی تاریخ اسی حقیقت کی گواہ ہے۔

آزادی کی بنیاد: خواہشات کی وسعت

  • آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف ایک خاص چیز کی خواہش تک محدود نہ رہے بلکہ وہ جو کچھ چاہے، اس کی طلب اور حصول ممکن ہو۔
  • اس لامحدود طلب کو پورا کرنے کے لیے جس بنیادی شے کی ضرورت ہے، وہ سرمایہ ہے۔
  • سرمایہ وہ قوت ہے جو انسان کو "کچھ بھی چاہنے اور اسے حاصل کرنے کی صلاحیت” دیتا ہے۔
  • یہی وجہ ہے کہ معاشی کامیابی کو مجموعی ملکی پیداوار (Gross Domestic Product) کے ذریعے ناپا جاتا ہے، کیونکہ زیادہ پیداوار زیادہ سرمایہ اور نتیجتاً زیادہ آزادی کی علامت ہے۔

سیلف انٹرسٹ (Self-Interest) کا تصور

لبرل فکر میں ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد (Self-Interest) کی تکمیل کی کوشش کرے۔ مگر اس ذاتی مفاد کا مطلب محض کسی بھی مقصد یا خواہش کی تکمیل نہیں بلکہ اس کا ایک مخصوص مطلب ہے، یعنی:

  • سیلف انٹرسٹ کا اصل مقصد: اپنی آزادی اور سرمائے میں لامحدود اضافہ۔
  • لبرل نظریہ کے مطابق فرد کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنی خواہشات، سرمایہ اور آزادی میں بڑھوتری کرے۔

سیلف انٹرسٹ کی محدود تشریح

اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس کا سیلف انٹرسٹ جنت حاصل کرنا یا مذہبی مقصد کی تکمیل ہے تو لبرل فکر کے تحت وہ شخص گمراہ اور زندیق سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ سیلف انٹرسٹ کی اس تعریف سے ہٹ رہا ہے۔

لبرل معیشت میں سیلف انٹرسٹ کا معتبر مطلب صرف یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ عملِ صرف (Consumption) کو بڑھائے، جسے میکرو اکنامکس میں "زندگی بھر کے خرچ کی زیادہ سے زیادہ حد” کہا جاتا ہے۔

آزادی بطور شیطان کی پیروی

آزادی کی لبرل قدر کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی پیروی کرے، چاہے وہ شیطان کی عبادت ہی کیوں نہ ہو۔

اگر کوئی شخص شیطان کی عبادت یا خواہشات کی مکمل پیروی نہیں کرتا تو وہ آزادی کے اصول کے مطابق زندیق ہے، جس طرح مذہب کے دائرے میں کوئی کافر زندیق کہلاتا ہے۔

آزادی کا مقصد: خدا سے بغاوت

آزادی دراصل خدا کی بندگی سے بغاوت کا نام ہے، جہاں انسان اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔

ایسا شخص شیطان کا تابع ہوتا ہے کیونکہ اس کی تمام ترجیحات نفس کی تکمیل سے جڑی ہوتی ہیں۔

آزادی اور تنہائی کا تعلق

آزادی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ذاتی تعلقات اور دیگر افراد سے جڑے تعلقات کو صرف اپنی ذاتی غرض تک محدود رکھے۔

مغربی معاشرت میں یہ تعلق محبت کے حقیقی تصور سے انکار ہے، کیونکہ وہاں تعلقات کی بنیاد اغراض پر مبنی ہوتی ہے۔

اس خودغرضانہ طرزِ زندگی کا نتیجہ تنہائی کی صورت میں نکلتا ہے، جو انسان کو اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اضطراب سے نجات

مغربی دہریت تسلیم کرتی ہے کہ یہ اضطراب دائمی اور فطری ہے اور اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

تاہم اسلام کے مطابق اس اضطراب سے نجات صرف ذکرِ الٰہی کے ذریعے ممکن ہے، کیونکہ ذکر دلوں کا سکون اور وجود کی بقا کا ذریعہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1