لبرلزم کے چیلنج کا تعارف
آج کے دور میں لبرلزم ایک نئی فکری جنگ کے طور پر اُبھر چکا ہے، جس کا ہدف اسلامی اقدار اور روایات ہیں۔ اس بلا کا سامنا کرتے وقت ہمیں اسلام کا ایسا بیان دینا ضروری ہے جس پر اہل سنت کے علاوہ بدعتی گروہوں تک کا اتفاق ہو، تاکہ اس فتنہ کے مقابلے پر ایک وسیع محاذ بنایا جا سکے۔ یہ محاذ تشکیل دینے کے لیے اصولِ سنت میں نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اس کی واضح رہنمائی موجود ہے۔
لبرلزم کی حقیقت: ایک مشترکہ دشمن
لبرلزم محض ایک فکر نہیں بلکہ ایک ایسا نظریہ ہے جو مسلم معاشروں میں اسلامی شناخت اور روایات کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہ اژدہا:
- اسلامی سزاؤں، جیسے زنا پر رجم، کا خاتمہ کرنے سے آگے بڑھ کر ان سزاؤں کے تصور کو ہی لغو قرار دینا چاہتا ہے۔
- فحاشی اور بے حیائی کو "فطری آزادی” کا نام دے کر ذہنوں میں اس کے خلاف کسی بھی قسم کی قدغن کو غیر ضروری اور پرانی بات بنا دینا چاہتا ہے۔
لہٰذا، لبرلزم کا مقابلہ صرف ایک فقہی یا جزوی مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے اسلامی ڈھانچے پر حملہ ہے۔
کون سا اسلام پیش کیا جائے؟
لبرلزم کے خلاف ہمیں وہ اسلام پیش کرنا چاہئے جس پر امت کے کسی بھی بڑے طبقے کا اختلاف نہ ہو۔ مثلاً:
- رجم یا دیگر متنازع موضوعات: ان مسائل کو اس وقت زیر بحث لانا ضروری نہیں، کیونکہ اس وقت اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا نظام ہی موجود نہیں۔
- جہاد یا مرتد کی سزا: اس وقت نہ تو کوئی امیر المومنین موجود ہے اور نہ کوئی ریاست مرتد کو سزا دینے یا جہادِ طلب کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان مسائل کو اٹھانے کا نتیجہ صرف لبرلزم کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوگا، جو شریعت کے مکمل نفاذ کو روکے رکھے گا۔
اسلامی محاذ: قوم کو یکجا کرنا
لبرلزم کے خلاف کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو "اسلام سے مجمل وابستگی” اور "کفر سے مجمل براءت” کے نکتہ پر یکجا کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ:
- اسلامی اصولوں پر ایک عمومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
- کفر کے مقابلے پر ایک واضح اور مشترکہ موقف اپنایا جائے۔
- اختلافی مسائل کو وقتی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے لبرلزم کے مشترکہ دشمن کے خلاف قوم کو متحد کیا جائے۔
اسلامِ مجمل کا کردار
شیخ صلاح الصاوی﷿ نے بحران کے وقت اسلام سے مجمل وابستگی اور کفر سے مجمل براءت کی اہمیت کو خوب واضح کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ:
- عوامی سطح پر غیر ضروری علمی اور فقہی موضوعات کو چھیڑنے کے بجائے وہ اسلام پیش کیا جائے جسے سب مانتے ہیں۔
- عوام میں سادہ اور واضح انداز میں یہ پیغام دیا جائے کہ ہمیں اپنے عقیدے اور اسلامی روایات سے وابستہ رہنا ہے اور لبرلزم جیسے فتنے سے مکمل براءت کرنی ہے۔
لبرلزم کے حامیوں کو بے نقاب کرنا
ان گروہوں کو جو اس وقت لبرلزم کی حمایت کر رہے ہیں یا اس کی راہ ہموار کر رہے ہیں، عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ امت کے علماء اور صالحین کو ان لوگوں کو "امت کا غدار” ثابت کرنے میں کوئی تساہل نہیں برتنا چاہئے۔
اختتامیہ: لبرلزم کے خلاف وسیع تر اتحاد
لبرلزم کے خلاف ہمیں جدت پسندوں اور روایت پسندوں کو ساتھ ملا کر ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ تمام اختلافات کے باوجود اس بات پر اتفاق ضروری ہے کہ لبرلزم جیسے درندے کو مسلم معاشروں سے باہر نکالنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ جنگ آسان نہیں، لیکن اگر قوم کو ایک آواز میں تبدیل کر دیا جائے تو یہ ممکن ہے۔