اسلام میں جنس کی بنیاد اور خنثی کے احکام

اسلامی نقطۂ نظر سے جنس کا تعین

اسلامی نقطۂ نظر سے جنس کا تعین اللہ کی تقدیر ازلی کا حصہ ہے، اور یہ ایک غیر متبدل حقیقت ہے۔ اس کا تعین پیدائش کے وقت ہی جسمانی اعضا سے کیا جاتا ہے، اور کسی انسان کی جنس کو نفسیاتی رجحان یا ہارمونز کی تبدیلی سے بدلنا ممکن نہیں۔ فقہاء کے نزدیک "خنثی” کی تعریف اور اس کے متعلق احکام اسی بنیادی اصول پر مبنی ہیں۔

خنثی کی شرعی تعریف

خنثی وہ انسان ہے جس کے جنسی اعضا میں ابہام ہو، یعنی اس میں مرد و عورت دونوں کے اعضائے تناسل موجود ہوں یا کسی میں واضح جنسی اعضا نہ ہوں۔ (علامہ حصکفی: «حاشیہ ابن عابدین، جلد 6، صفحہ 727»)

خنثی کی اقسام

  • خنثی غیر مشکل: وہ خنثی جس میں اعضائے تناسل سے اس کی جنس واضح ہو جائے، مثلاً اگر پیشاب کرنے کی جگہ سے مرد یا عورت کی شناخت ہو تو اسے خنثی غیر مشکل کہا جائے گا۔
  • خنثی مشکل: وہ خنثی جس میں جنس کی تعیین مشکل ہو جائے اور کسی ایک جنس کی طرف اس کی واضح پہچان نہ ہو۔ اس کا معاملہ فقہاء کے نزدیک پیچیدہ ہے، اور اس کے فیصلے کے لیے شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔

خنثی کی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے

پیشاب کی جگہ کا اعتبار

فقہاء کے نزدیک خنثی کی جنس کا تعین اس کی جائے پیشاب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے منقول ہے کہ وہ خنثی کی وراثت یا دیگر احکام کا فیصلہ اسی بنیاد پر کرتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد 8، صفحہ 389)
"خنثی کو اس کی پیشاب کی جگہ سے وراثت دی جائے گی، اگر پیشاب مردانہ اعضا سے کرتا ہے تو اسے مرد اور اگر زنانہ اعضا سے کرتا ہے تو عورت شمار کیا جائے گا۔”
(ابن قدامہ، المغنی، جلد 9، صفحہ 108)

خنثی مشکل کے اضافی معیارات:

  • اگر دونوں جگہ سے پیشاب کرے تو دیکھا جائے گا کہ کس جگہ سے پہلے پیشاب شروع ہوتا ہے۔
  • بلوغت کے بعد جسمانی تبدیلیوں پر بھی غور کیا جاتا ہے، جیسے داڑھی نکلنا یا چھاتی کی افزائش۔

جنس کا تعین اور جینیاتی علم

جینیاتی علم بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انسانی جنس کا تعین بنیادی طور پر ظاہری اعضا سے کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ اعضا جینوٹائپ کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں۔ استثنائی حالات میں بھی جنس کی بنیاد ظاہری ساخت پر ہی رکھی جاتی ہے، جیسا کہ "ایکس ایکس نر” یا "ایکس وائی مادہ” کے معاملات میں ہوا۔

خنثی کے فقہی احکام

1. وراثت کا قانون:

  • اگر خنثی مرد ثابت ہو جائے تو اسے مرد کے مطابق حصہ ملے گا اور اگر عورت ثابت ہو جائے تو عورت کے مطابق۔
  • خنثی مشکل کی صورت میں اسے مرد و عورت دونوں کے حصوں کا نصف دیا جائے گا۔ (حاشیہ ابن عابدین، جلد 6، صفحہ 727)

2. نکاح کا حکم:

  • خنثی اگر مرد قرار دیا جائے تو اس کا نکاح عورت سے ہوگا اور اگر عورت قرار دیا جائے تو مرد سے۔
  • خنثی مشکل کی صورت میں نکاح کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک جنس کی تعیین نہ ہو۔

3. نماز اور عبادات:

خنثی مشکل کے لیے نماز اور دیگر عبادات میں مرد و عورت دونوں کے احکام کا خیال رکھا جائے گا، جیسے لباس اور صف بندی کے معاملات۔

تبدیلی جنس کا شرعی حکم

اعضا کی تبدیلی کا حکم:

کسی انسان کے اعضا کی تبدیلی، جیسے مرد کا عورت بننے کے لیے سرجری کروانا یا عورت کا مرد بننے کے لیے، شریعت میں حرام ہے کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق میں غیر فطری مداخلت ہے۔ فقہاء کے نزدیک جنس کی بنیاد اعضائے تناسل پر ہے، اور سرجری کے ذریعے ظاہری تبدیلی جنس کو نہیں بدل سکتی۔

نفسیاتی بنیاد پر جنس کی تبدیلی:

نفسیاتی یا شعوری طور پر جنس بدلنے کا دعویٰ شریعت میں معتبر نہیں۔ اللہ نے جس جنس کے ساتھ پیدا کیا ہے، انسان اسی کا پابند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والے شیطانی وسوسوں کی مذمت کی گئی ہے:

"وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ”
"اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی خلقت کو بدل ڈالیں گے۔”
(النساء: 119)

ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ معاشرتی رویہ

اسلام میں ہر انسان کے ساتھ احترام کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شریعت کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص نفسیاتی یا شعوری طور پر اپنی جنس کو بدلنے کا دعویٰ کرے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے، لیکن اس کے اس دعوے کو شرعی اعتبار سے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

سیرت طیبہ میں بھی ان افراد کے لیے مناسب رویے کی مثالیں موجود ہیں جہاں ان کی رہنمائی کی گئی، لیکن ان کے غیر شرعی اعمال کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔

نتیجہ

اسلام میں جنس ایک اٹل حقیقت ہے جس کا تعین پیدائشی اعضا سے ہوتا ہے، اور یہ حقیقت جینیاتی علم اور فقہ دونوں کے مطابق تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خنثی یا خنثی مشکل کے لیے شریعت نے واضح احکام دیے ہیں جو فقہاء کے اجماع سے ثابت ہیں۔ تبدیلی جنس یا نفسیاتی بنیاد پر صنف کا بدلنا شرعی لحاظ سے ناجائز ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1