سجدے میں رانجھا راضی کرنے کے جملے کی شرعی وضاحت

سوال

«آپ نے سجدے سے سر کیوں اٹھایا؟ فرمایا: بچے اپنا رانجھا راضی کر لیں اور میں سجدے میں اپنا رانجھا راضی کر لوں»۔
یہ جملہ کس حدیث کا مفہوم ہے اور کیا یہ کہنا درست ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

یہ جملہ کسی حدیث کے اصل الفاظ نہیں ہیں بلکہ تفہیمی اور عوامی انداز میں بیان کیا گیا ہے، جو ایک حدیث کے مفہوم سے ماخوذ ہے۔ ولا حرج فیہ ان شاءاللہ (اگر اسے مناسب انداز میں بیان کیا جائے تو کوئی حرج نہیں)۔

اصل حدیث

سنن النسائی (1141) میں حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ ہمیں ایک مرتبہ نماز عشاء میں ملے اور آپ ﷺ حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے بچے کو زمین پر بٹھایا اور نماز شروع کر دی۔
دورانِ نماز، آپ ﷺ نے ایک سجدہ کیا جو کافی دیر تک جاری رہا۔
راوی کہتے ہیں: میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ آپ ﷺ کی پشت پر تھا۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔
نماز کے بعد لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے سجدے کو اتنا لمبا کیوں کیا؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
"میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے اس کی ضرورت پوری ہونے تک اسے جلدی اتارنا مناسب نہیں سمجھا۔”
[سنن النسائی: 1141]

رانجھا راضی کرنے کے جملے کی وضاحت

◄ حدیث میں اصل جملہ نہیں ہے لیکن "رانجھا راضی کرنا” کا مفہوم دل کو خوش کرنے یا کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
◄ اگر اس ترکیب کو "اللہ کی رضا اور سکون دل” کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اسے عام یا غیر مناسب انداز میں بولنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ بات کا مقصد واضح اور شرعی حدود کے مطابق رہے۔

نتیجہ

◄ یہ جملہ حدیث کے اصل الفاظ نہیں ہے، بلکہ عوامی انداز میں حدیث کے مفہوم کی وضاحت ہے۔
◄ اگر اس جملے کو صحیح مفہوم میں اور اللہ کی رضا کے لیے سجدے کی اہمیت کے تناظر میں سمجھا جائے، تو استعمال جائز ہے، لیکن بہتر ہے کہ الفاظ محتاط ہوں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے