ضرورت مند کو مخصوص مد کے پیسے دینے کا شرعی حکم

سوال

میرے پاس ایک ضرورت مند خاتون کے 2500 روپے ہیں، جو اسے دو ماہ کے گیس بل کی ادائیگی کے لیے دیے گئے تھے۔ تاہم، وہ خاتون کہتی ہے کہ فی الحال انہیں کمیٹی کی قسط ادا کرنے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ کیا میں اسے وہ پیسے دے سکتا ہوں تاکہ وہ اپنی فوری ضروریات پوری کر سکے اور بعد میں بل کا انتظام کر لے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ضرورت مند اور مفلوک الحال شخص کی مدد کرنا شریعت میں پسندیدہ اور نیکی کا کام ہے، اور زکاۃ کے مستحقین میں ایسے افراد شامل ہیں جو شدید تنگدستی میں ہوں۔
خاتون کے حالات دیکھ کر، اگر وہ واقعی پریشان ہے اور فوری طور پر کمیٹی ادا کرنے یا دیگر ضروریات پوری کرنے کی ضرورت ہے، تو اسے پیسے دے دینا بہتر ہے۔

شرعی نقطہ نظر

قرآن میں "لِلفُقَرَاءِ” میں استعمال ہونے والا لام ملکیت کا ہے، یعنی ضرورت مند جب زکاۃ یا مدد کی رقم لے لیتا ہے، تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے اور اسے جہاں ضرورت ہو، استعمال کر سکتا ہے۔
اس کے باوجود، اسے رہنمائی اور مشورہ دینا مستحب ہے تاکہ وہ اپنے مالی معاملات بہتر طریقے سے سنبھال سکے۔

نتیجہ

اگر وہ خاتون واقعی ضرورت مند ہے، تو اسے یہ رقم دے دینا جائز ہے، چاہے وہ کمیٹی ادا کرے یا دیگر ضروریات پوری کرے۔
اللہ تعالیٰ اس کے دیگر مالی معاملات کے لیے بھی سبیل پیدا کر دے گا، اور اسے بل کی ادائیگی کے لیے کوئی اور وسیلہ فراہم ہو جائے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے