لباس: کیا یہ واقعی ایک ذاتی معاملہ ہے؟
ہماری نوجوان نسل، خاص طور پر جامعات میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات، کو کسی نے یہ سکھا دیا ہے کہ لباس ایک ذاتی مسئلہ ہے اور کوئی بھی اتھارٹی اس پر کوئی اخلاقی یا قانونی قدغن نہیں لگا سکتی۔ لیکن اگر ہم خود لبرل نظریات کا گہرا جائزہ لیں تو یہ دعویٰ نہایت کمزور اور غلط ثابت ہوتا ہے۔
لبرل نظریات کا عمومی فریم ورک
لبرل فلسفے میں فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق پر بہت بحث ہوتی ہے، اور یہی بحث اس سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ ریاست کن معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے۔ اگرچہ لبرل مفکرین کے درمیان تفصیلات میں اختلافات ہیں، لیکن عمومی طور پر درج ذیل اصولوں پر اتفاق پایا جاتا ہے:
لاء اینڈ آرڈر کا نظام
ریاست کا پہلا کام قانون اور نظم و ضبط قائم کرنا ہے تاکہ ایک منظم معاشرہ وجود میں آ سکے۔ بعض مفکرین، مثلاً فریڈرک ہائیک، کا کہنا ہے کہ ریاست کا کردار صرف پہلے سے موجود فطری معاشرتی نظم کو برقرار رکھنا ہے۔ لیکن جدید اقتصادی ماہرین اس پر زور دیتے ہیں کہ کچھ مخصوص قوانین کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ لبرل مارکیٹ کا قیام ممکن ہو سکے۔
مارکیٹ کی ناکامی کی صورت میں مداخلت
جب مارکیٹ خود بہتر نتائج دینے میں ناکام ہو، تو ریاست درج ذیل صورتوں میں مداخلت کر سکتی ہے:
- پبلک گڈز (Public Goods)
- بیرونی اثرات (Externalities)
- مارکیٹ پاور کا ارتکاز
- ناقص معلومات یا عدم توازن
- نامکمل مارکیٹس
معاشی استحکام
ریاست مالیاتی نظام اور معیشت کی عمومی استحکام کے لیے مختلف ریگولیشنز لگا سکتی ہے۔
پدرانہ کردار (Paternalistic Role)
یہاں ریاست کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ طے کرے کہ فرد کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ اگر کوئی عمل فرد یا معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، تو ریاست اسے روک سکتی ہے، جیسے سیٹ بیلٹ باندھنے کا قانون۔
فرد کی آزادی: محدود یا غیر محدود؟
لبرل اصول یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن کیا یہ اصول ہر جگہ اور ہر صورت میں لاگو ہوتا ہے؟ اس پر خود لبرل مفکرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کیسے اور کن بنیادوں پر فیصلہ کرے کہ کون سا عمل درست نہیں؟
انٹرنلٹی (Internality) کا مسئلہ
بعض اوقات فرد کی اپنی ترجیحات اس کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ جیسے قلیل مدتی خواہشات لمبے عرصے میں اس کی زندگی پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
لبرل اصولوں کی روشنی میں لباس کی ریگولیشن
لبرل اصولوں کے تحت وہ تمام اعمال اور اقوال ریاستی ریگولیشن کے دائرے میں آ سکتے ہیں جو دوسروں پر اثر انداز ہوں یا خود فرد کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اگر کوئی شخص عوامی جگہ پر فحش گوئی یا نازیبا حرکت کرے، تو یہ کہہ کر اسے آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا کہ یہ اس کا ذاتی عمل ہے۔
اسلامی ریاست اور لبرل اعتراضات
جب خود لبرل اصولوں کے تحت ریاست کو فرد کی آزادیوں میں مداخلت کا حق حاصل ہے، تو اسلامی ریاست پر یہ اعتراض کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ شرعی اصولوں کی بنیاد پر افراد کے اعمال ریگولیٹ کرے؟ اگر لبرل ازم اپنے "مقاصد” کے تحت ریاستی مداخلت جائز قرار دیتا ہے، تو ایک اسلامی ریاست قرآن و سنت کی روشنی میں فرد اور معاشرے کے مفاد میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟
نتیجہ
لبرل اصول اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ریاست فرد کی آزادی کو محدود کر سکتی ہے، بلکہ سوال صرف یہ ہے کہ کس حد تک اور کن معاملات میں۔ لہذا، یہ خیال کہ لباس مکمل طور پر ذاتی مسئلہ ہے، نہ صرف غلط بلکہ خود لبرل نظریات کے مطابق بھی ناقابلِ دفاع ہے۔