مسلمان معاشرے میں عورت کا کردار: ماضی اور حال
مسلمان معاشرے میں پچھلی کئی صدیوں سے صنفِ نسواں کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس دوران نہ صرف عورت کے دینی کردار کو محدود کیا گیا بلکہ دنیاوی میدان میں بھی اس کی شرکت کو روکا گیا۔ یہاں تک کہ بعض معاشرتی رویے اس حد تک مضبوط ہو گئے کہ عورت کے کردار پر بات کرنا گویا عقائد کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ بن گیا۔
عورت کے دینی کردار کی اہمیت
اسلام ایک متوازن دین ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے تعمیری کردار کا تعین کرتا ہے۔ مگر برِصغیر کے بیشتر معاشرتی حلقوں میں عورت کے مسجد میں آنے اور دینی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو سخت ناپسند کیا گیا۔ دلیل دی گئی کہ اس سے ’فتنہ‘ پیدا ہوگا، اور اسی بنیاد پر عورت کو صدیوں تک مساجد سے دور رکھا گیا۔
سنت سے ثابت دینی مراکز
سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں مساجد کو دینی و تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے سیکھنے اور سکھانے کے مواقع ملیں۔ لیکن اس عمل کو روکنا ایک ایسی روایت بن گئی جس کا سلفِ صالحین کے زمانے میں کوئی تصور نہ تھا۔
مغرب کی تخریبی حکمتِ عملی
اس کے برعکس مغرب میں عورت کو سماج کے ہر شعبے میں آخری حد تک لے جایا گیا، مگر یہ زیادہ تر تخریبی مقاصد کے لیے تھا۔ مغرب کی عورت کو حد سے زیادہ آزادی دے کر خاندانی نظام کو تباہ کیا گیا۔ اسلامی معاشرے کو اس کے مقابلے میں ایک تعمیری کردار کے ساتھ عورت کو آگے لانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تہذیب کے اس پہلو پر مغرب نے سبقت حاصل کر لی۔
عورت کی تربیت: اسلامی مراکز کا کردار
مغرب میں اسلامی مراکز میں جو محدود سطح پر خواتین کی دینی اور معاشرتی شرکت دیکھنے کو ملی، وہ اسلامی معاشرے کے لیے قابلِ غور ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، لیکن اسلام کے اجتماعی و معاشرتی عمل میں عورت کے مثبت کردار کو سامنے لانے کے لیے یہ ایک اہم پہلو ہے۔
برِصغیر کا خاص رویہ
برِصغیر میں عورت کے دینی کردار کو حوصلہ شکنی کا نشانہ بنایا گیا، اور اس رویے کو دین کا تقاضا سمجھا گیا۔ عورت کے دنیوی کردار کو بھی مختلف انداز سے محدود کیا گیا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی آج دین سے وابستگی ظاہر کرتا ہے تو اسے اسی مخصوص سوچ کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی حدود اور ترجیحات
اسلام عورت اور مرد دونوں کے لیے مخصوص حدود اور ترجیحات رکھتا ہے۔ آزادانہ میل جول ممنوع ہے، اور پردے کا نظام مضبوطی سے قائم کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم، دینی اور معاشرتی میدانوں میں کئی ایسے شعبے ہیں جہاں مسلمان خواتین کا کردار ضروری ہے، تاکہ آئندہ سماجی تبدیلی میں ان کا حصہ ہو اور وہ اسلامی تہذیب کی احیاء میں مددگار بنیں۔