حورانِ بہشتی کا مفہوم اور عمومی تصور
قرآن کریم میں جنت کے تذکروں کے ساتھ اکثر مقامات پر حورانِ بہشتی کا ذکر ہوتا ہے، جنہیں بے مثال حسن و جمال اور پاکیزگی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ ان حسیناؤں کا ذکر صرف مومن مردوں کو جنت کی طرف راغب کرنے کے لیے کیا گیا ہے، اور یہ تذکرے مومن خواتین کے لیے غیر متعلق سمجھے جاتے ہیں۔ اس غلط فہمی کے باعث خواتین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مومن مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو مومن عورتوں کو کیا ملے گا؟ اس تحریر میں انہی سوالات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔
حور کا مفہوم: لغوی اور قرآنی وضاحت
لغوی تعریف:
”حور“ عربی میں ”حوراء“ کی جمع ہے، جس کا مطلب گوری رنگت اور جاذبِ نظر بڑی آنکھوں والی حسین لڑکیاں ہے۔
قرآن میں استعمال:
حور کا مطلب کسی خاص قسم کی مخلوق یا مخصوص جنتی خواتین نہیں، بلکہ عمومی طور پر جنت کی وہ تمام حسینائیں ہیں جو مومنوں کو جنت میں بطور انعام ملیں گی، خواہ وہ دنیا کی نیک خواتین ہوں یا کلمہء ”كُن“ سے پیدا ہونے والی۔
قرآنی شواہد: حور کے ذکر کی مختلف جہات
قرآن مجید میں ”حور“ کا ذکر چار مقامات پر آیا ہے:
- الدخان: 54
- الطور: 20
- الرحمن: 72
- الواقعہ: 22
جبکہ کئی دیگر مقامات پر جنتی ازواج کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مثلاً ”مطهّرات“، ”ازواج مطهّرات“ اور ”قاصرات الطرف“ (البقرہ: 25، آلِ عمران: 15، یس: 56)۔ ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنتی خواتین کا ذکر محدود نہیں بلکہ تعمیم کے ساتھ کیا گیا ہے۔
احادیث کی روشنی میں وضاحت
بزرگ عورتوں کا جنت میں جوان ہونا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں داخل ہونے والی بوڑھی خواتین کو دوبارہ جوان اور کنوارا بنا دیا جائے گا:
’’جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں ہوگی۔‘‘
(جامع الترمذی، رقم: 3296)
ام رومانؓ کو حور سے تشبیہ دینا:
نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کی اہلیہ ام رومانؓ کے بارے میں فرمایا:
’’جو شخص کسی جنتی حور کو دیکھنا چاہے، وہ ام رومان کو دیکھ لے۔‘‘
(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد، 8/276)
مفسرین کی آراء اور اختلاف
بعض مفسرین نے یہ رائے دی کہ قرآن میں ”حور“ کا اطلاق صرف ان حسیناؤں پر ہوتا ہے جو جنت میں کلمہء ”كن“ سے پیدا کی گئی ہیں۔ تاہم، اکثر مفسرین اس تخصیص کو قبول نہیں کرتے اور ان کے مطابق ”حور“ کا مطلب تمام جنتی حسینائیں ہیں، جن میں دنیا کی نیک خواتین بھی شامل ہیں۔ امام طبری، ابن کثیر اور دیگر کئی مفسرین نے اس تخصیص کو لغوی اور قرآنی دلائل کے برخلاف قرار دیا ہے۔
حورانِ بہشتی میں خواتین کے لیے دلچسپی کے پہلو
جنتی حسیناؤں کے اوصاف میں نہ صرف مومن مردوں کے لیے بلکہ خواتین کے لیے بھی ترغیب موجود ہے۔ خواتین کا سب سے بڑا خواب ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ مثالی حسن کی مالک ہوں اور ایک باوقار، خوبرو اور نیک رفیقِ حیات ان کے ساتھ ہو۔ جنت میں یہ تمام خواہشات اپنے اعلیٰ ترین درجے میں پوری ہوں گی۔
قرآنی اوصاف:
- ”حور“ کا مطلب: جاذبِ نظر حسینائیں، جن کی آنکھوں میں طلسماتی کشش ہوگی (الرحمن: 72)
- ”عین“: بڑی بڑی آنکھوں والی آہو چشم لڑکیاں (الصافات: 48)
- ”ابکار“: ہمیشہ کنواری اور نوجوان رہنے والی (الواقعہ: 36)
- ”یاقوت و مرجان جیسی“: ان کا سراپا قیمتی جواہرات جیسا ہوگا (الرحمن: 58)
- ”مطہرات“: ہر قسم کی ظاہری و باطنی نجاست سے پاک (البقرہ: 25)
- ”عُرُب“: دلربا، ہنسنے والی اور لاڈلی بیویاں (الواقعہ: 37)
- ”قاصرات الطرف“: صرف اپنے شوہروں کی طرف متوجہ اور ان پر فدا ہونے والی (الرحمن: 56)
مردوں کے حسن و جمال کا ذکر
قرآن و احادیث میں جنتی مردوں کے حسن و جمال کا ذکر بھی موجود ہے، مثلاً:
- چمکدار چہرے: ان کے چہرے ہنستے مسکراتے اور خوشحالی سے بھرپور ہوں گے (عبس: 38)
- زیب و زینت: ریشمی لباس، سونے کے زیورات اور بیش قیمت کنگن پہنیں گے (الحج: 23)
- مثالی رفاقت: جنتی مرد و خواتین دونوں مثالی حسن اور اخلاق کے حامل ہوں گے، جن کے درمیان مکمل محبت اور ہم آہنگی ہوگی۔
آخری بات
حورانِ بہشتی کے تذکروں کو صرف مردوں سے مخصوص کرنا ایک غلط فہمی ہے۔ قرآن و احادیث میں یہ تذکرے خواتین کے لیے بھی مساوی دلچسپی اور ترغیب کا باعث ہیں۔ جنت میں جانے والی خواتین کو بھی ناقابلِ تصور حسن، لاجواب رفاقت اور تمام خواہشات کی تکمیل کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے جنت کی نعمتوں کے ذکر کو دنیاوی تلذذ یا لطیفوں کا ذریعہ بنانے کے بجائے، اسے آخرت میں کامیابی کے لیے جذبۂ عبادت کا محرک بنانا چاہیے۔