مرد کو طلاق کا غیر مشروط حق
اسلامی تعلیمات کے مطابق مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ اگرچہ شریعت میں بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق دینا ناپسندیدہ اور گناہ قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود مرد کے پاس طلاق کا یہ اختیار موجود ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ طلاق حلال امور میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے (سنن ابی داؤد، حدیث: ۲۱۷۸)۔
عورت کے لیے بالواسطہ طلاق کا حق
اسلام نے عورت کو براہ راست طلاق دینے کا اختیار نہیں دیا، لیکن یہ بھی نہیں کہ اسے کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر عورت کو اپنے شوہر سے کوئی شکایت ہو یا کوئی بڑی تکلیف ہو، تو وہ شرعی عدالت یا ثالثی کونسل سے رجوع کر سکتی ہے۔ یہ ادارے اگر عورت کی شکایت کو درست سمجھیں اور نباہ کی کوئی صورت نہ پائیں، تو نکاح کو فسخ کر سکتے ہیں۔ اس طرح عورت کا حق بالواسطہ ہے، تاکہ خاندانی نظام میں نظم اور اتحاد برقرار رہے۔
برابری کے بجائے نظم کی ضرورت
خاندانی نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ کسی ایک کو فیصلہ سازی میں ترجیح دی جائے۔ اگر عورت اور مرد دونوں کو یکساں اور مکمل آزادی دے دی جائے تو روزمرہ کے جھگڑوں سے خاندانی نظام کمزور ہو جائے گا۔ مغربی معاشرے میں ہم اس کا عملی نتیجہ دیکھ چکے ہیں، جہاں فیملی سسٹم بکھر چکا ہے۔
مغربی معاشرے میں خاندانی نظام کا زوال
مغرب نے شادی کو صرف ایک ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دے دیا اور مذہبی یا اخلاقی بنیادوں پر قائم رکھنے کے بجائے مساوات کی بنیاد پر قائم کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام برباد ہو گیا، اور شادی کی اہمیت ختم ہو گئی۔ مغربی مرد اب شادی کے اخراجات اور ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں کیونکہ وہاں عورت کو طلاق دینے یا چھوڑنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جب شادی کے بغیر ہر خواہش پوری ہو سکتی ہو تو شادی کے بندھن میں پڑنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اقوام متحدہ کا دوہرا معیار
اقوام متحدہ کے چارٹر میں خاندانی نظام کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیا گیا ہے، لیکن اس نے ایسا کوئی نظام فراہم نہیں کیا جو اس اجتماعیت کی حفاظت کرے۔ اس کے برعکس، اس نے فرد کی آزادی اور حقوق پر زور دیا ہے، جس سے اجتماعیت متاثر ہو رہی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر: اجتماعیت اور فرد کی ذمہ داری
اسلام میں خاندانی نظام اور معاشرتی نظم و ضبط کی بنیاد اجتماعیت پر ہے، جہاں فرد کی خواہشات کو مخصوص اصول و ضوابط کا پابند کیا جاتا ہے۔ یہ پابندیاں رشتوں میں احترام اور خاندانی نظام کے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ اگر فرد اپنی آزادی کو مکمل طور پر بالاتر سمجھے اور ان پابندیوں کو قبول نہ کرے، تو نہ خاندانی نظام مستحکم رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرتی اقدار کا تحفظ ممکن ہے۔
نتیجہ
اسلامی خاندانی نظام کے استحکام کا راز فرد کی خواہشات پر مناسب قدغنوں میں ہے، جہاں باہمی رشتوں کا احترام اور صلہ رحمی کے اصولوں پر معاشرتی ڈھانچہ قائم رہتا ہے۔