سوال:
نماز جنازہ میں امام کے دعا کرنے پر مقتدیوں کا آمین کہنا کیسا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
1. اصل مسنون عمل:
اصل اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہر نمازی نمازِ جنازہ میں اپنی طرف سے دعائیں کرے۔
اگر نمازیوں کو دعا یاد ہو تو انہیں خود دعا پڑھنی چاہیے، کیونکہ یہی زیادہ اولیٰ اور سنت کے مطابق ہے۔
2. جہری نماز جنازہ میں آمین کہنے کی اجازت:
اگر جنازہ جہری (بلند آواز سے) پڑھا جا رہا ہو اور مقتدیوں کے لیے دعائیں خود پڑھنا ممکن نہ ہو، تو دعائے قنوت یا دعائے نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے امام کی دعا کے وقفوں میں آمین کہی جا سکتی ہے۔
آمین کہنے کا شرعی اصول:
عمومی دلائل یہ بیان کرتے ہیں کہ آمین کہنے والا دعا میں شریک شمار ہوتا ہے، لہٰذا آمین کہنا دعا میں شامل ہونے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
3. آمین کہنے کا طریقہ:
آمین سری (آہستہ) طور پر کہنا بہتر ہے، لیکن اگر کسی کی آواز کچھ بلند ہو جائے تو بھی گنجائش موجود ہے۔
تاہم، آمین کہنے کو باقاعدہ اجتماعی شکل دینا یا سب کو آمین کہلوانے کی کوشش کرنا محلِ نظر ہے اور اس سے احتراز کیا جائے۔
4. علماء کی آراء:
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے قنوت وتر یا قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے نمازِ جنازہ میں آمین کہنے کی اجازت دی ہے۔
ہمارے بعض مشائخ بھی اس معاملے میں نرمی کا موقف رکھتے ہیں اور آمین کہنے کو جائز سمجھتے ہیں، بشرطیکہ اس میں بدعت یا نئی شکل اختیار نہ کی جائے۔
خلاصہ:
- بہتر اور مسنون عمل یہی ہے کہ ہر نمازی خود دعائیں پڑھے۔
- اگر امام جہری دعا کرے اور دعائیں یاد نہ ہوں، تو آمین کہی جا سکتی ہے، لیکن آہستہ اور انفرادی طور پر۔
- اجتماعی طور پر آمین کہلوانا یا اس عمل کو بدعت قرار دے کر سختی سے روکنا بھی مناسب نہیں۔