اسلام میں مرد کی قوامیت اور خاندانی نظام کا استحکام

اسلام میں مرد کی قوامیت

اسلام نے خاندانی نظام کو منظم اور مستحکم بنانے کے لیے مرد کو ایک خاص برتری عطا کی ہے جسے قرآن میں "قوام” کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق مرد اور عورت کے اختیارات مساوی نہیں ہوسکتے کیونکہ خاندان ایک انتظامی اکائی ہے، اور کسی بھی اکائی میں دو سربراہان کا مساوی اختیار رکھنا عقلی لحاظ سے ممکن نہیں۔

خاندان میں سربراہ کا تصور

دنیا کا کوئی بھی ادارہ دو سربراہوں کے ساتھ درست طریقے سے نہیں چل سکتا۔ لہٰذا اسلام نے خاندان میں ایک شخص کو قانونی اور عملی طور پر فوقیت دی تاکہ خاندانی نظام اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکے۔

مرد کی برتری کا قرآنی بیان

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَآء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ (النساء: 34)

ترجمہ: مرد عورتوں کے سربراہ ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

قوام کا مطلب اور تشریح

عربی زبان میں "قوام” کا مطلب ہے نگرانی کرنے والا، دیکھ بھال کرنے والا، اور مالی کفالت کرنے والا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قوام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

قوام وہ شخص ہوتا ہے جو کسی فرد، ادارے یا نظام کے معاملات کو سنبھالنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے۔ (تفہیم القرآن، ۱/۳۴۹)

قوامیت کے اسباب

قرآن نے مردوں کی قوامیت کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں:

  • وہبی فضیلت: اللہ نے بعض پہلوؤں میں مردوں کو عورتوں پر فطری برتری عطا کی ہے۔
  • کسبی فضیلت: مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں، یعنی ان کی مالی کفالت کرتے ہیں۔

وہبی فضیلت کی وضاحت

مولانا مودودیؒ کے مطابق:

یہ فضیلت عزت یا کرامت کے معنوں میں نہیں بلکہ فطری خصوصیات میں برتری کی بنیاد پر ہے۔ مردوں کو جسمانی، ذہنی اور عملی قوتیں دی گئی ہیں جن کی وجہ سے وہ خاندانی سربراہی کے اہل ہیں۔ (تفہیم القرآن، ۱/۳۴۹)

علامہ رشید رضا نے اس پر مزید روشنی ڈالی کہ مرد اور عورت جسم کے مختلف اعضا کی طرح ہیں، جہاں ہر عضو کی فضیلت دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے لیے معاون ہے۔

کسبی فضیلت کی تشریح

قرآن کے مطابق مردوں کو قوّام اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں:

وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِہِمْ

اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے مال (عورتوں پر) خرچ کرتے ہیں۔

اسلام نے خاندان کی مالی کفالت مرد کے ذمے لگائی ہے اور عورت کو اس سے آزاد رکھا ہے۔ اس مالی ذمہ داری نے مرد کو خاندانی نظام میں ایک اعلیٰ مقام دیا ہے۔

قوامیت کی عمومی حیثیت اور استثنائی حالات

مولانا سید جلال الدین عمری نے وضاحت کی کہ قرآن نے عمومی طور پر مرد کو قوام قرار دیا ہے۔ اگرچہ بعض استثنائی صورتوں میں عورت مالی کفالت کرے یا جسمانی لحاظ سے مضبوط ہو، تب بھی مرد کی قوامیت برقرار رہتی ہے تاکہ خاندانی نظام میں توازن قائم رہے۔

مرد کی قوامیت: نگران، نہ کہ آمر

اسلام میں مرد کی قوامیت کا مطلب عورت پر حاکمیت یا آمریت نہیں بلکہ ایک نگران کی حیثیت ہے۔ مرد کا کردار خاندان کے تمام افراد کی بھلائی اور تحفظ کے لیے ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

"مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا”
(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، ۷۱۳۷، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، ۱۸۲۹)

شیخ محمد عبدہٗ فرماتے ہیں:

قوامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت افراد اپنے اختیارات کے ساتھ آزاد ہوں۔ قوام اپنے اختیارات کو صرف رہنمائی اور نگرانی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ (رشید رضا، ۵/ ۶۸)

عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید

اسلام نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی سختی سے تاکید کی ہے:

"وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (النساء: 19)

ترجمہ: ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے”
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، ۱۴۶۷)

نتیجہ

اسلام نے خاندانی نظام کو استحکام بخشنے کے لیے مرد کو قوامیت دی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مردوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی کہ وہ اپنے زیردستوں کے ساتھ شفقت، محبت اور نرمی سے پیش آئیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے