عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کی حدیث کا درست مفہوم

حدیث کا مکمل سیاق و سباق

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، وہ دوسروں کو تکلیف نہ دے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ مہمان کی عزت کرے۔ مہمان کے حقوق کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تین دن کا حق ہے، اس کے بعد مہربانی ہے۔ مزید فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھے کلمات کہے یا خاموش رہے۔ عورتوں کے بارے میں میری نصیحت قبول کرو، وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، اور پسلی سب سے زیادہ اوپر کے حصے میں ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت قبول کرو۔”
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5185)

حدیث کا مقصد اور اس کی وضاحت

یہ حدیث کسی مخلوق کی تخلیق یا مرد و عورت کے مقام و مرتبے پر بحث کے لیے نہیں بلکہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہدایت دیتی ہے۔ اس حدیث میں تین قسم کے افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے:

مہمان (ضیف): وہ افراد جن سے کبھی کبھار واسطہ پڑتا ہے۔
پڑوسی (جار): وہ لوگ جن سے روزمرہ زندگی میں واسطہ رہتا ہے۔
اہلِ خانہ، خصوصاً عورتیں: وہ افراد جن کے ساتھ زندگی کا سب سے زیادہ وقت گزارا جاتا ہے۔

عرب معاشرہ ایک مرد غالب معاشرہ تھا، جہاں مرد کی طاقتور حیثیت تھی۔ اس پس منظر میں آپ ﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو زیادہ اہمیت دی اور مردوں کو خاص طور پر عورت کے حقوق کی یاد دہانی کروائی۔

عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مطلب

قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ:

"اللہ نے پہلے ایک جان پیدا کی، پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔”
(سورۃ النساء: 1)

البتہ قرآن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ عورت کی تخلیق کس طریقے سے ہوئی۔ حدیث میں عورت کے "پسلی سے پیدا ہونے” کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا، لیکن یہ معنی قطعی طور پر لازم نہیں۔ عربی زبان اور حدیث کے محاورے میں یہ تشبیہات اکثر مشابہت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے: "فلاں شخص کسی سخت ہڈی سے بنا ہے”۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ واقعی ہڈی سے بنا ہے، بلکہ مراد اس کے رویے کی سختی ہوتی ہے۔

عورت کے ٹیڑھے پن کی تشبیہ اور مقصد

حدیث میں عورت کے پسلی کی طرح ٹیڑھی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی فطرت میں کچھ ایسے پہلو ہیں جو مرد کے لیے ناقابلِ فہم ہوسکتے ہیں۔ پسلی کا ٹیڑھا ہونا اس کے اپنے مقصد کے لیے ضروری ہے، اسی طرح عورت کا "ٹیڑھا پن” بھی اس کی فطری خوبصورتی اور زندگی میں اس کے کردار کے لیے لازمی ہے۔

حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ عورت کو زبردستی "سیدھا” کرنے کی کوشش کرنے سے تعلقات بگڑ جائیں گے، کیونکہ یہ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ اسی لیے مردوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ عورت کی فطری کمزوریوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی سے پیش آئیں۔

عورت اور مرد کے مزاج کا فرق

حدیث کے اس حصے میں عورت کی فطرت کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ عورت مرد کے مزاج پر مکمل طور پر "فٹ” نہیں بیٹھ سکتی، کیونکہ اللہ نے دونوں کو مختلف خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ لیکن مرد بھی عورت کے لیے "ٹیڑھا” ہوسکتا ہے، جیسے دو ہلال یا دو کمانیں ایک دوسرے کے لیے ٹیڑھی ہوتی ہیں۔

"لن تستقیم لک” کا مفہوم

بعض روایات میں آیا ہے کہ "عورت کسی بھی حالت میں تمہارے معیار پر سیدھی نہیں بیٹھے گی”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد جس طرح سوچتا ہے یا جس معیار پر عورت کو دیکھنا چاہتا ہے، عورت فطرتاً اس پر پورا نہیں اترے گی۔
یہ بات دراصل مرد کو عورت سے غیر حقیقی توقعات قائم کرنے سے روکتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ عورت کا تلون یا جذباتی پن، اس کی فطری خوبی ہے، کوئی نقص نہیں۔

عورت کا تلون اور اس کے فوائد

عورت کی شخصیت میں لچک اور جذباتیت اس کے زندگی میں کردار کے لیے ضروری ہے۔ اگر عورت مرد کی طرح سخت اور بے لچک ہوجائے تو وہ اپنے نسوانی کردار سے محروم ہوجائے گی، جو کہ خاندان کی زندگی اور بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ پسلی کا ٹیڑھا پن طبی لحاظ سے فائدہ مند ہوتا ہے، اسی طرح عورت کی جذباتیت بھی خاندان اور معاشرتی زندگی کے لیے فائدہ مند ہے۔

حدیث کا اصل سبق: حسنِ سلوک کی تلقین

حدیث کا بنیادی مقصد مرد کو یہ سکھانا ہے کہ وہ عورت کی فطرت کے ساتھ نرمی اور صبر کے ساتھ پیش آئے۔ مرد اکثر یہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کی بیوی میں کوئی خاص خامی ہے اور دوسری عورتیں بہتر ہوں گی، لیکن حدیث بتاتی ہے کہ عورت جہاں بھی ہوگی، وہ اسی "ٹیڑھے پن” کے ساتھ ہوگی۔ اس لیے مرد کو عورت کے ساتھ نباہ کا ہنر سیکھنا ہوگا۔

حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ عورت کو زبردستی اپنے معیار پر لانے کی کوشش مرد کے لیے ناکامی کا باعث ہوگی۔ کامیاب ازدواجی زندگی کی کنجی یہ ہے کہ مرد عورت کے فطری مزاج کو قبول کرے اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہو۔”
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3895)

نتیجہ

یہ حدیث مرد کو یہ شعور دیتی ہے کہ وہ عورت کی فطرت کو قبول کرکے اس کے ساتھ نرمی اور برداشت سے زندگی گزارے۔ مرد کے لیے کمال یہی ہے کہ وہ عورت کی مختلف فطرت کے باوجود اس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے