جوانی میں خود کشی اور اسلام کی روشنی
کسی بھی انسان کی جوانی میں خود کشی ایک المناک واقعہ ہے، خاص طور پر جب وہ شخص اسلام قبول کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائے۔ ایسے موقع پر دکھ محسوس کرنا فطری ہے، کیونکہ یہ خیال آتا ہے کہ کاش اس نے خود کشی نہ کی ہوتی، توبہ کرلی ہوتی، اور اسلام کی روشنی کو پا لیا ہوتا۔
دائمی جہنم کا تصور اور دعائے مغفرت
ایسے افراد کے لیے دعائے مغفرت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حق صرف اور صرف اسلام میں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہوئے بغیر دنیا سے چلا جائے تو اس کے لیے بخشش کی دعا کرنا گویا اسلام کی حقانیت سے انحراف کرنے کے مترادف ہے۔ (قرآن مجید، سورۃ آل عمران: 85)
لیکن اس بات کا فیصلہ کہ اللہ کسی شخص کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، اللہ کے رحم و کرم پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے معاملے میں سب سے زیادہ رحیم ہے، اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا رویہ اپنانا چاہیے۔
انبیاء کا طرزِ عمل
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء نے بھی کفار کے لیے بخشش کی دعا نہیں کی، بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ یہی طرزِ عمل ہمیں بھی اپنانا چاہیے۔ ہم اس شخص کو برا بھلا کہنے سے اجتناب کریں گے، خاص طور پر اگر اس سے کسی کو دکھ پہنچتا ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مرے ہوؤں کے بارے میں ایسی باتوں سے منع کیا ہے جس سے زندہ لوگ تکلیف محسوس کریں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، حدیث نمبر: 4900)
عبرت حاصل کرنے کی ضرورت
اس واقعے سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے:
◄ دنیا کی چمک دمک ہمیں اصل مقصد سے غافل نہ کر دے۔
◄ اصل کامیابی آخرت کی ہے، اور ناکامی بھی آخرت کی ناکامی ہے۔
◄ دل کا حقیقی سکون صرف اللہ کی یاد میں ہے۔ (سورۃ الرعد: 28)
اللہ ہمیں دنیاوی فتنوں سے محفوظ رکھے اور آخرت کی کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔