یورپ اور امریکہ کی آزادی یا اسلامی شرم و حیا

پاکستان میں شرم و حیا اور آزاد معاشرتی ماڈل

پاکستان میں جب شرم و حیا اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے پر زور دیا جاتا ہے، تو لبرل اور سیکولر حلقے فوراً اعتراض کرتے ہیں کہ مسئلہ لباس یا شرم و حیا کا نہیں بلکہ "گندی نظر” اور "بیمار سوچ” کا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اگر معاشرتی پابندیاں ختم ہوں اور آزادانہ میل جول کو فروغ دیا جائے، تو انسانی جذبات پر قابو پایا جا سکتا ہے، اور جنسی کشش بھی معمول کی چیز بن جائے گی۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ آئیے یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے آزاد معاشروں کے حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

یورپ: آزادی کے باوجود خواتین غیر محفوظ

یورپی یونین کا سروے (2014):

◄ یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کے ایک سروے کے مطابق، یورپ کی تقریباً ایک تہائی خواتین (15 برس کی عمر سے) جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہیں۔ یہ تعداد تقریباً 6 کروڑ 20 لاکھ خواتین پر مشتمل ہے۔
◄ سروے میں 42 ہزار خواتین سے انٹرویوز کیے گئے، جو اس موضوع پر اب تک کا سب سے بڑا جائزہ ہے۔
◄ غور کیجیے کہ یہ صورتحال ان معاشروں میں ہے جہاں شراب، شباب اور سیکس کی کھلی آزادی ہے، لیکن اس کے باوجود خواتین محفوظ نہیں۔
(رپورٹ کا لنک کمنٹس میں ملاحظہ کریں)

امریکہ: جنسی جرائم کا مرکز

2010 کی رپورٹ:

◄ امریکہ میں ہر منٹ 25 افراد جنسی زیادتی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
◄ ایک سال میں 10 لاکھ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
◄ 60 لاکھ افراد (مرد و خواتین) کو تعاقب کا سامنا کرنا پڑا۔
◄ 1 لاکھ 20 ہزار افراد نے اپنے ساتھی کے ہاتھوں جنسی یا جسمانی تشدد کی شکایت کی۔

یونیورسٹی کیمپس میں جنسی تشدد:

◄ ہر پانچ میں سے ایک طالبہ اپنی تعلیم کے دوران جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔
◄ ان میں سے صرف 12 فیصد خواتین کیس رپورٹ کرتی ہیں، باقی خاموش رہتی ہیں۔
◄ یہ دعویٰ کہ صرف پاکستان میں کیس رپورٹ نہیں ہوتے، امریکہ میں بھی حقیقت سے دور نہیں ہے۔

امریکی فوج میں جنسی جرائم

2006 سے 30 فیصد اضافہ:
◄ امریکی فوج میں جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
2003 کے ایک سروے میں 500 ریٹائرڈ فوجی خواتین سے بات کی گئی، جن میں سے 30 فیصد نے بتایا کہ انہیں دورانِ ملازمت ریپ کا سامنا کرنا پڑا۔
2009 کے سروے کے مطابق، فوج کے اندر ہونے والے 90 فیصد جنسی جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

برطانیہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات

چائلڈ لائن (2009 کی رپورٹ):

◄ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور حیران کن طور پر خواتین بھی بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث پائی گئیں۔
2008 میں، 16 ہزار بچوں نے چائلڈ ہیلپ لائن پر فون کیا، جن میں سے 2,142 بچوں نے کسی خاتون کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
2004 کے مقابلے میں یہ تعداد 132 فیصد زیادہ تھی۔

آکسفورڈ جنسی اسکینڈل (2013)

◄ اس اسکینڈل میں کم از کم 273 لڑکیوں کا جنسی استحصال ہوا۔

امریکی صدر براک اوباما کا اعتراف

امریکی صدر اوباما نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ایک ریپ کیس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کیمپس میں جنسی ہراسانی دراصل انسانیت کی توہین ہے۔ لیکن امریکی معاشرہ جنسی زیادتی کی مناسب مذمت کرنے میں ناکام ہے، جس کی بنیادی وجہ شرم اور خوف ہے۔

ڈاکٹر کے وائیٹ لی (امریکی وزارتِ دفاع)

◄ کسی بھی عورت کے لیے جنسی زیادتی کا کیس رپورٹ کرنا جذباتی اور نفسیاتی طور پر انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ امریکہ میں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

نتیجہ: انسانی فطرت اور معاشرتی تحفظ

یورپ اور امریکہ کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ "گندی نظر” یا "معاشرتی گھٹن” کا نہیں بلکہ انسانی فطرت کا ہے۔ جتنی آزادی دی جائے، اتنی ہی بدامنی اور جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیکولر لابی کے اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں کہ آزادانہ میل جول سے جنسی ہوس ختم ہو جاتی ہے۔

کیا ہمیں یورپ کا ماڈل اپنانا چاہیے؟

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی این جی اوز کے ایجنڈے کو قبول کرکے یورپ جیسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، یا اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں شرم و حیا کا تقدس برقرار رہے؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے