مشرک کے لیے دعائے مغفرت اور مزاروں پر دعا کا حکم

سوال

کیا کسی قبر سے مانگنے والے کلمہ گو مشرک کے لیے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟ اور مزاروں پر دعائے مغفرت کے لیے جانا کیسا ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

کلمہ گو مشرک کے لیے دعائے مغفرت کا حکم:

قرآنِ مجید میں واضح حکم موجود ہے کہ مشرک کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں، چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

ارشادِ باری تعالیٰ:

"مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ”
(سورة التوبة: 112)

’’نبی اور ایمان لانے والوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں، اگرچہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر واضح ہو گیا ہو کہ وہ جہنمی ہیں۔‘‘

مرنے کے بعد کلمہ گو مشرک کے لیے دعائے مغفرت ممنوع ہے:

اگر کوئی شخص توبہ کیے بغیر شرک پر مر گیا تو اس کے لیے دعائے مغفرت، جنازہ پڑھنا، یا تدفین کے وقت کسی بھی قسم کی دعا کرنا جائز نہیں۔

نبی کریم کا واضح حکم ہے کہ جو شخص شرک پر فوت ہو جائے، اس کے لیے مغفرت کی دعا نہیں کی جا سکتی۔

مزاروں پر دعائے مغفرت کے لیے جانا:

مزاروں پر جا کر دعائے مغفرت کرنا بھی ناجائز ہے، کیونکہ وہاں اکثر غیر شرعی اعمال کا خدشہ ہوتا ہے اور شرک یا بدعت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

وضاحت:

اس معاملے پر لوگوں کی مختلف تاویلات بھی آتی ہیں، لیکن اہلِ علم کا مؤقف واضح ہے کہ جو شخص شرک پر مرے، اس کے لیے دعائے مغفرت قرآن و سنت کے مطابق ممنوع ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے