انسانی زندگی کے دو بنیادی شعبے
انسانی زندگی بنیادی طور پر دو مختلف شعبوں پر مشتمل ہے:
- گھر کے اندر کی زندگی
- گھر کے باہر کی زندگی
یہ دونوں شعبے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور کسی ایک کے بغیر متوازن اور کامیاب زندگی ممکن نہیں۔ گھر کا انتظام بھی ضروری ہے اور کمانے یا کسبِ معاش کا انتظام بھی۔ جب دونوں شعبے اپنی اپنی جگہ ٹھیک سے چلتے ہیں، تو انسان کی زندگی بہتر ہوتی ہے، لیکن اگر کسی ایک میں بھی کمی ہو جائے تو توازن بگڑ جاتا ہے۔
مرد اور عورت کے فطری فرائض
اللہ تعالیٰ نے فطری تقسیم کے تحت مرد کو گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری دی، مثلاً:
- کمانا
- معاشرتی و سیاسی سرگرمیاں
جبکہ گھر کے اندر کا انتظام عورت کو سونپا گیا ہے۔ اللہ کے اس حکم کے پیچھے فطری حکمت ہے، کیونکہ مرد اور عورت کی جسمانی اور نفسیاتی ساخت میں فرق ہے۔ مرد جسمانی طور پر عورت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے، اور باہر کے کام اکثر جسمانی قوت اور محنت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس فطری فرق کے باعث مرد کے لیے گھر سے باہر کے کام اور عورت کے لیے گھر کا انتظام زیادہ مناسب ہے۔
مغربی معاشرے میں عورت کی آزادی کا نعرہ
مغربی معاشرے میں جب اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر ہر قسم کی آزادی کو ترجیح دی گئی تو مردوں نے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے عورت کے "آزاد” ہونے کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے کے تحت عورت کو باور کرایا گیا کہ اسے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں حصہ لینا چاہیے۔ اس طرح کے دلکش نعروں کے ذریعے عورت کو گھروں سے نکال کر دفاتر، ہوٹلوں، اور دکانوں میں کام پر لگا دیا گیا۔
آزادی کے نام پر عورت کا استحصال
عورت کو مختلف شعبوں میں اس طرح پیش کیا گیا:
- دفتروں میں کلرک
- سیلز گرل
- ماڈل گرل
- ہوٹلوں میں ویٹریس
تجارتی اداروں نے عورت کو محض ایک شو پیس بنا دیا، جہاں وہ مردوں کے لیے تفریح کا سامان بنی۔ دعویٰ تو یہ کیا گیا کہ عورت کو سیاسی و سماجی اعلیٰ مناصب پر فائز کیا جائے گا، لیکن حقیقت میں چند ایک خواتین کے سوا اکثریت کو نچلے درجے کے کاموں میں مشغول کر دیا گیا۔
عورت کے اصل فرائض اور خاندانی نظام کی تباہی
اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر کی منتظمہ بنایا تھا تاکہ خاندانی نظام قائم رہے اور بچے ماں کی گود میں تربیت پائیں۔ لیکن جب عورت گھر سے باہر نکلی تو خاندانی نظام بکھر گیا:
- ماں باپ دونوں گھر سے باہر، بچے اسکولوں یا نرسری میں
- ماں کی شفقت سے محروم بچے
- والدین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری اور طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان
مغربی ماہرین کا اعترافِ شکست
سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف نے اپنی مشہور کتاب پروسٹرائیکا میں تسلیم کیا کہ:
"عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں ہمیں کچھ معاشی فوائد تو ضرور حاصل ہوئے، لیکن اس کا خاندانی نظام پر جو منفی اثر پڑا، اس نے ہمارے تمام فوائد کو زائل کر دیا۔ اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ عورت کو دوبارہ گھر کی طرف کیسے لایا جائے، ورنہ ہمارا معاشرہ مکمل تباہی کا شکار ہو جائے گا۔”