سوال:
ایک عیسائی لڑکی، جس کے بغیر نکاح کے تعلقات سے ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اب وہ مسلمان ہو چکی ہے، اگر وہ کسی مسلمان مرد سے شادی کرے، تو اس کی بیٹی کس کے نام سے منسوب ہوگی؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
زنا سے پیدا ہونے والے بچے کی شرعی حیثیت:
زنا سے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"الولد للفراش وللعاهر الحجر”
ترجمہ: ’’بچہ صاحبِ فراش (عقدِ نکاح والے شوہر) کی طرف منسوب ہو گا، اور زانی کے لیے صرف پتھر ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری: 2053، صحیح مسلم: 1457)
دو ممکنہ صورتیں
➊ پہلی صورت:
◄ اگر زانیہ عورت شادی شدہ ہو، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اس کے خاوند کی طرف منسوب ہوگا، کیونکہ اس کے نکاح کا رشتہ موجود ہے۔
◄ اس کے مطابق بچہ اس عورت کے خاوند کا تصور کیا جائے گا، اور زانی کی طرف کسی بھی قسم کی نسبت نہیں ہوگی۔
➋ دوسری صورت:
◄ اگر عورت غیر شادی شدہ ہو (جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں)، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب کیا جائے گا، کیونکہ وہاں شرعی خاوند موجود نہیں ہے۔
◄ زانی کی طرف بچے کی نسبت درست نہیں ہوگی۔
◄ اس بچے کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث سے واضح ہے کہ زانی کا اس بچے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
نئے مسلمان شوہر کی حیثیت:
◄ اگر یہ خاتون کسی مسلمان مرد سے نکاح کر لیتی ہیں، تو اس کی بیٹی اس کے نئے شوہر کی ربیبہ (سوتیلی بیٹی) ہوگی، نہ کہ حقیقی بیٹی۔
◄ کاغذات میں اگر سرپرست کا خانہ ہو، تو خاتون اپنے نئے شوہر کو سرپرست کے طور پر لکھوا سکتی ہیں، لیکن بطور والد لکھوانا شرعاً اور قانونی طور پر درست نہیں۔
خلاصہ:
◄ زنا سے پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا، اور زانی کی طرف نسبت کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔
◄ نئے مسلمان شوہر کے لیے وہ بیٹی ربیبہ (سوتیلی بیٹی) ہوگی۔
◄ کاغذات میں سرپرست کے طور پر نئے شوہر کا نام درج کرایا جا سکتا ہے، لیکن والد کے طور پر نہیں۔