مقدمہ
یہ مضمون روایتی لسانی طریقہ کار سے ہٹ کر ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میں اسے انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا اور عالمی شہرت یافتہ تنقید نگاروں نے اس پر اظہارِ خیال کیا۔ بعد ازاں، اسے اردو میں منتقل کر کے "الفاظ کی تاثیر” کا عنوان دیا گیا۔
اہم نکات
اس مضمون میں درج ذیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے:
- الفاظ کے مطلق معانی کی ضرورت
- شہری اور دیہاتی زبان کی تاثیر
- الفاظ کی پیدائش اور اصوات کا ارتقا
- قرآنی حروفِ مقطعات کی ممکنہ توضیح
حروفِ مقطعات کا مفہوم
قرآن کے بعض سورتیں مخصوص حروفِ مقطعات سے شروع ہوتی ہیں، جن کی مختلف تفاسیر پیش کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ کے مطابق ان کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، جبکہ بعض علما کا ماننا ہے کہ ان کا مفہوم نبی کریمﷺ اور برگزیدہ ہستیوں پر منکشف کیا گیا ہے۔
مصنف کے مطابق، حروفِ مقطعات درحقیقت ان سورتوں کے "عنوانات” ہیں، جو ان کے مرکزی پیغام کی تاثیر کو بیان کرتے ہیں۔ بعض سورتوں کے واضح عنوانات ہوتے ہیں، جیسے سورۃ بنی اسرائیل، جبکہ کچھ سورتیں حروفِ مقطعات سے شروع ہوتی ہیں۔
الفاظ کی ابتدا اور تاثیر
انسانی زبان میں الفاظ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ یہ سوال لسانی تحقیق میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف کے مطابق، الفاظ کی تشکیل کا ابتدائی عمل دیہی زندگی سے وابستہ تھا، جس میں:
- بدو ی الفاظ (Bucolic words) – فطرت سے متاثر، آوازوں پر مبنی، زیادہ بااثر
- مدنی الفاظ (Urban words) – شہری زندگی میں تشکیل پانے والے، زیادہ تر مجرد معانی کے حامل
اصوات اور ان کی تاثیر
الفاظ کی تاثیر میں ان کے صوتی اجزا کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
- "ش” اور "س” کی آوازیں – شدت، شر، شور، شک
- "م” اور "ل” کی آوازیں – نرمی، محبت، ممتا، ملائمت
سانپ کی سرسراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، اور فطری مظاہر کی آوازیں زبانوں کے الفاظ میں جھلکتی ہیں، جیسے:
- کوا، کاگ، سانپ وغیرہ کے نام ان کی آوازوں سے متاثر ہیں۔
یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ ابتدائی زبان میں الفاظ صرف علامتی ہوتے تھے، جن کے معانی بعد میں متعین کیے گئے۔
مدنی اور بدوی الفاظ کا فرق
مدنی الفاظ زیادہ تر مجرد معانی کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں تاثیر کم ہوتی ہے، جبکہ بدوی الفاظ میں فطری تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔
اردو زبان اس کا بہترین نمونہ ہے۔ چونکہ اردو زیادہ تر غیر مادری زبان بولنے والوں میں رائج رہی، اس لیے اس کے الفاظ کی تاثیر کمزور ہوگئی اور نفاست بڑھ گئی۔
قرآن کی زبان کی تاثیر
قرآن کی زبان اپنی فطرت میں "اُمّی” ہے، یعنی اس کے الفاظ میں وہی فطری تاثیر موجود ہے جو بدوی الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے معانی میں تغیر نہیں آتا۔
حروفِ مقطعات اور ان کی تاثیر
حروفِ مقطعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے استدلال کیا کہ یہ دراصل سورتوں کی تاثیر کو بیان کرتے ہیں۔
مثلاً، سورۃ البقرہ الف لام میم سے شروع ہوتی ہے، جس میں "الف”, "لام”, اور "میم” کی نرمی اور ملائمت پائی جاتی ہے، جو اس سورہ کے مجموعی پیغام سے ہم آہنگ ہے۔
نتیجہ
یہ تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن کی زبان فطری طور پر تاثیر رکھتی ہے اور حروفِ مقطعات کو سورتوں کے عنوانات کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے، جو ان کے مجموعی پیغام کی تاثیر کا احاطہ کرتے ہیں۔