جدید لسانیاتی نظریات اور الہامی نصوص کی معنویت

جدید لسانیاتی نظریات اور مذہب پر ان کے اثرات

جدید لسانیاتی نظریات بنیادی طور پر پوسٹ ماڈرن فلسفے سے اخذ شدہ ہیں، جن کے مطابق الفاظ کے معانی اور ان کے اطلاقات سماجی ماحول اور نفسیاتی کیفیات کے تابع ہوتے ہیں۔ ان نظریات کی بنیاد پر فلسفۂ لسانیات کے ماہرین الہامی کتب کی آفاقیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور ان میں کسی بھی قطعی معنی کے امکان سے انکار کرتے ہیں۔ اگر الفاظ کے معانی حتمی نہیں، تو الہامی نصوص میں بیان کردہ حلال و حرام اور خیر و شر کا مفہوم بھی غیر مستقل ہوجاتا ہے۔

فلسفیانہ مباحث اور مذہب پر تنقید

چند روز قبل فیس بک پر شائع ہونے والا ایک کالم "مذہب پر عصری تنقید” نظر سے گزرا، جس میں مصنف نے جدید فلسفیانہ مباحث کو بنیاد بنا کر مذہبی علمیت پر بعض "بدیہی سوالات” کھڑے کیے۔ ان کے مطابق ان سوالات کا علمی جواب دینا اور اس کی علمی قدر ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ مصنف کا خیال تھا کہ مشرق کے اہل علم ان فلسفیانہ مسائل سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، جو کسی حد تک درست بھی ہے۔

فلسفے کے اندر رہتے ہوئے مسائل کا حل

فلسفیانہ نظریات کے مفروضات پر تنقید کیے بغیر، ان کے اندر رہتے ہوئے مسائل کا جواب دینے کی کوشش اکثر ناکام رہتی ہے۔ امام غزالیؒ نے اسی غلط روش کو بھانپتے ہوئے فلسفے کے بنیادی غیر ثابت شدہ اصولوں کا تجزیہ کیا اور انہیں رد کیا۔ جو شخص فلسفے کو اعلیٰ حقیقت مان کر اس کی روشنی میں وحی کو جانچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل اسی گمراہ کن راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو معتزلہ نے اختیار کیا تھا۔

معانی کے تعین کا مسئلہ

فلسفیوں کا عمومی مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کو اصل مان کر پورے وجود کو اسی میں محدود کردیتے ہیں۔ نطشے نے قوت، مارکس نے معیشت اور فرائیڈ نے جنسی جبلت کو بنیاد بنا کر انسانی افعال کا تجزیہ کیا۔ اسی طرح لسانی مباحث کے تحت انسانی نفس کے بارے میں بھی دو انتہاؤں پر مبنی نظریات موجود ہیں:

  • Essentialism: انسان کو ایک معین، مستقل شے تصور کرتا ہے۔
  • Existentialism: انسان کو ایک متغیر وجود مانتا ہے جو مستقل بدلتا رہتا ہے۔

ہائیڈیگر اور آزادی کا تصور

بیسیویں صدی کے فلسفی ہائیڈیگر کے مطابق انسان کسی مخصوص حقیقت سے جُڑا ہوا نہیں بلکہ وہ مستقل طور پر "ہوتا رہتا” ہے۔ وہ آزادی کو بنیادی قدر تسلیم کرتا ہے، جہاں آزادی کا مطلب "کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” ہے۔ تاہم، جب انسان کسی چیز کو اپنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اپنی آزادی کھو دیتا ہے، کیونکہ آزادی عدم محض (nothingness) کی جستجو ہے۔

اس فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی آزادی تعلقات کی نفی کا سبب بنتی ہے، جس سے وہ تنہائی اور اضطراب کا شکار ہوتا ہے:

  • جوں جوں آزادی بڑھتی ہے، تنہائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
  • جیسے جیسے تنہائی بڑھتی ہے، اضطراب اور یاسیت بڑھتی ہے۔
  • اس کا نتیجہ محرومی، غضب اور شہوت کی شدت میں نکلتا ہے۔

یہ فلسفہ انسان کو اس کے اصل مقام سے دور کردیتا ہے اور اسے مسلسل بے یقینی میں مبتلا رکھتا ہے۔

عبدیت اور انسانی حقیقت

اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی اصل عبدیت (بندگی) ہے۔ جب وہ اس حقیقت سے انحراف کرتا ہے تو اضطراب اور گناہ کے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ہمیشہ سے ایک ہی دین رہا ہے اور قرآن خود کو "ذکر” یعنی ازلی حقیقت کی یاد دہانی قرار دیتا ہے۔

الہامی نصوص اور معانی کی قطعیت

دین کے بنیادی اصول ہمیشہ قطعی رہے ہیں، اور صحابہ کرامؓ نے انہیں اسی طرح سمجھا جیسے آج کا مسلمان۔ چودہ سو سال سے مسلمان دن میں پانچ وقت نماز ایک ہی طریقے سے ادا کر رہے ہیں، اس پر کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہوا۔ اگر معانی غیر مستقل ہوتے تو یہ تسلسل ممکن نہ ہوتا۔

تعمیر نفس اور معنی کے فہم کا اسلامی طریقہ

نفس کے تعین کا مطلب دراصل اس کی تعمیر اور اصلاح ہے۔ مغربی فلسفے کے تحت "آزادی” پرورش پانے والا نفس وحی کے معنی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، جبکہ اسلامی طرز پر پروان چڑھنے والا نفس وحی سے ہدایت پانے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اصول اہم ہیں:

  • نیت کی اصلاح: جب انسان اپنی نیت درست کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اضطراب سے نجات دے کر اطمینان عطا کرتا ہے۔
  • اتباعِ سنت: ہر چھوٹے بڑے عمل میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو اختیار کرنا، تاکہ نفس کی اصلاح ممکن ہو۔
  • حقیقی مقام کی پہچان: عبدیت کو قبول کرنا اور اللہ کے حکم پر راضی رہنا۔
  • معروضی زاویۂ نظر: حقیقت کو اللہ کے مقرر کردہ تناظر میں دیکھنا، نہ کہ اپنی خواہشات کے مطابق۔

جدید فلسفے کا اصل مسئلہ

لسانیاتی مباحث کے تحت الہامی کتب کو بے معنی ثابت کرنے کی کوشش نفس انسانی کی حقیقت کے بارے میں ایک غلط مفروضے پر مبنی ہے، جو یہ فرض کرتا ہے کہ انسانی نفس کچھ بھی نہیں، بلکہ مسلسل تغیر پذیر ہے۔ حالانکہ انسانی تعاملات، تاریخ، اور وحی یہ ثابت کرتی ہیں کہ انسان کی فطرت مستقل ہے اور وہ معانی کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہائیڈیگر کا فلسفہ ایک ایسے شخص کے نفس کا عکاس ہے جو اپنے رب سے کٹ چکا ہے اور بے مقصدیت کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ایسا نفس اصلاح کا محتاج ہوتا ہے، نہ کہ معانی کے تعین میں کوئی پیمانہ بن سکتا ہے۔

اللہ ہمیں حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے