سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ حاملہ تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حالت حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا طلاق بچے کی پیدائش کے بعد دی جائے یا وہ طلاق اسی وقت نافذ ہو جاتی ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حالت حمل میں طلاق دینا جائز ہے، اور یہ طلاق سنت کے مطابق (طلاقِ سنی) شمار ہوتی ہے۔
یہ تصور کہ حالت حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی، غلط اور بے بنیاد ہے۔
حدیث مبارکہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَذَکَرَ ذَلِکَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا”
[صحیح مسلم: 3659]
ترجمہ:
"میں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رجوع کرنے کا حکم دو، پھر چاہیے کہ حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔”
حکم:
- حالت حمل میں طلاق نافذ ہو جاتی ہے اور فوری طور پر لاگو ہوتی ہے۔
- اس عورت کی عدت حمل کے اختتام تک ہوگی، یعنی بچے کی پیدائش پر عدت ختم ہو جائے گی۔