تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں

➊ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلى ركعتين
”تم میں سے کوئی جب بھی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے ۔“
[بخاري: 444 ، 1163 ، كتاب الصلاة: باب إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين ، أبو داود: 467 ، نسائي: 53/2 ، ابن ماجة: 1013 ، أحمد: 259/5 ، ابن خزيمة: 1825 ، ابن حبان: 2496]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اونٹ کی قیمت وصول کرنے کے لیے جب مسجد میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حكم ديا:
أن يصلى الركعتين
”کہ وہ دو رکعت نماز ادا کریں ۔“
[مسلم: 715 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب استحباب تحية المسجد ، بخاري: 2097]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا جبکہ وہ دو رکعت پڑھے بغیر بیٹھ گئے:
ان يصليهما
”کہ وہ دو رکعت نماز ادا کریں ۔“
[بخاري: 443 ، كتاب الصلاة: باب الصلاة إذا قدم من سفر ، مسلم: 875]
اس کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔
(اہل ظاہر ) امام ابن بطالؒ نے ان سے وجوب نقل کیا ہے۔
[تحفة الأحوذي: 265/2]
(جمہور ) تحیۃ المسجد کا حکم استحباب کے لیے ہے ۔
[أيضا]
(امیر صنعانیؒ ) زیادہ ظاہر وجوب ہی ہے۔
[سبل السلام: 366/1]
(شوکانیؒ) (اس مسئلے پر بحث کے بعد فرماتے ہیں کہ گذشتہ شواہد سے آپ کو یہی معلوم ہو گا کہ ) اہل ظاہر کا قول یعنی وجوب زیادہ ظاہر ہے۔
[نيل الأوطار: 292/2]
(راجح) ہمارے علم کے مطابق تحیۃ المسجد واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ و مستحب عمل ہے۔ والله اعلم
جن علماء کا یہ موقف ہے وہ مندرجہ ذیل دلائل پیش نظر رکھتے ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو فرض نمازوں کی تعداد پانچ بتلائی تو انہوں نے عرض کیا: هل على غيرها؟ ”کیا ان نمازوں کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ، إلا أن تطوع ”نہیں، مگر یہ کہ تم خوشی سے کوئی نماز پڑھو۔“
[بخارى: 46 ، كتاب الإيمان: باب الزكاة من الإسلام]
➋ ایک روایت میں ہے کہ :
كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلون المسجد ثم يخرجون ولا يصلون
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مسجد میں داخل ہوتے ، پھر نکلتے اور وہ کوئی نماز (یعنی تحیۃ المسجد وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے۔“
[ابن أبى شيبة: 3428]
➌ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے۔ (اس حدیث میں ہے کہ ) حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
تعال فجئت حتى جلست بين يديه فقم حتى يقضى الله فيك فقمت فمضيت
”یہاں آؤ ، پس میں آیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (یعنی مسجد میں) بیٹھ گیا“ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کھڑے ہو کر چلے جاؤ حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق فیصلہ فرما دیں (حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ) میں کھڑا ہوا اور چلا گیا ۔“
[بخاري: 4418 ، كتاب المغازى: باب حديث كعب بن مالك]
اسی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو اس وقت بلایا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوتے ، منبر پر بیٹھ جاتے ، اور خطبے سے فارغ ہو جانے سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھتے ۔
➎ بروز جمعہ گردنیں پھلاگنے والے شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اجلس فقد آذيت ”تم بیٹھ جاؤ یقینا تم نے تکلیف پہنچائی ہے۔ “
[صحيح: صحيح أبو داود: 989 ، أحمد: 118/4 ، أبو داود: 1118 ، ابن خزيمة: 1811]
(ابن حجرؒ) فتوی دینے والے آئمہ کا اتفاق ہے کہ اس (یعنی گذشتہ ) حدیث میں حکم استحباب کے لیے ہے۔
[فتح البارى: 640/1]
(ابن حزمؒ ) یہ دو رکعتیں واجب نہیں ہیں ۔
[نيل الأوطار: 291/2]
(نوویؒ) اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے (یعنی عدم وجوب پر ) ۔
[شرح مسلم: 244/3]
(ابن قدامہؒ) مسجد میں بیٹھنے سے پہلے یہ رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔
[المغني: 554/2]

اگر کوئی بھول کر یہ رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھ جائے

تو جب یاد آئے وہ دوبارہ کھڑا ہو کر یہ رکعتیں ادا کرے اور پھر بیٹھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ ایک شخص کو حکم دیا : قم فصل ركعتين ”کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت نماز ادا کرو ۔“ اسی طرح جب حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ، مسجد میں داخل ہو کر بیٹھ گئے تو ںبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اركعت ركعتين؟ ”کیا تم نے دو رکعتیں ادا کی ہیں؟“ انہوں نے کہا ”نہیں“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قم فاركعهما ”کھڑے ہو جاؤ اور یہ دو رکعتیں ادا کرو۔“
[فتح البارى: 641/1 ، ابن حبان ، باب إن تحية المسجد لا تفوت بالجلوس]

اگر جماعت کھڑی ہو اور کوئی مسجد میں آئے

تو اسے باجماعت نماز ادا کر لینی چاہیے تحیتہ المسجد پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے یہی کفایت کر جائے گا۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: سبل السلام: 367/1]
جیسا کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ :
إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة
”جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو صرف فرض نماز ہی قبول ہوتی ہے۔“
[مسلم: 710 ، أبو داود: 1266]

ممنوعہ اوقات میں تحیۃ المسجد کا حکم

بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رکعتیں ممنوع اوقات میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں جیسا کہ شافعیہ اسی کے قائل ہیں البتہ امام ابو حنیفہؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام لیثؒ ان اوقات میں تحیتہ المسجد کو مکروہ کہتے ہیں۔ راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان اوقات میں نماز سے گریز کرنا ہی بہتر ہے خواہ جواز بھی ثابت ہوتا ہو۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 292/2 ، تحفة الأحوذي: 266/2 ، شرح مسلم: 244/3]
(ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ) تحیۃ المسجد تمام اوقات میں پڑھنا جائز ہے۔
[فتاوي ابن باز مترجم: 62/1]
(ابن بازؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أيضا]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1