لیوپولڈ دوم کانگو کے مظلوموں کا سفاک قاتل

تعارف

زیادہ تر لوگ لیوپولڈ دوم کے بارے میں نہ جانتے ہیں اور نہ اس کا نام پہچانتے ہیں، حالانکہ یہ شخص دنیا کے ظالم ترین حکمرانوں میں شامل ہے۔ لیوپولڈ دوم، جو بلجیم کا بادشاہ تھا، نے افریقی ملک کانگو میں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ اندازہ ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں 10 ملین سے زائد انسان ہلاک ہوئے۔

لیوپولڈ دوم کا پس منظر

  • حکمرانی کا دور: 1885 سے 1909 تک۔
  • منصوبہ: ایشیا اور افریقہ میں ناکامیوں کے بعد لیوپولڈ نے افریقی ملک کانگو کو اپنا ہدف بنایا۔
  • دھوکہ: کانگو کے سرداروں سے ایک معاہدے پر دستخط کروائے، جس میں زمین، وسائل، اور لوگوں کے حقوق پر قبضہ کر لیا گیا۔
    • معاہدے کی شرائط کے مطابق سردار اپنی زمینوں اور حقوق سے دستبردار ہو گئے اور سوسائٹی (جس کا سربراہ لیوپولڈ تھا) کو افرادی قوت مہیا کرنے کے پابند بنائے گئے۔

کانگو کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار

  • ربڑ کی پیداوار: لیوپولڈ نے کانگو کو قدرتی وسائل، خاص طور پر ربڑ کے درختوں، کے لیے استعمال کیا۔
  • طلب میں اضافہ: گاڑیوں اور ہوا بھرے ٹائروں کی مانگ بڑھنے کے باعث ربڑ کی قیمت میں اضافہ ہوا، اور لیوپولڈ نے اسے کانگو سے حاصل کرنے کا وحشیانہ نظام قائم کیا۔

ظلم و ستم کا طریقہ

لوگوں کو غلام بنانا

  • فوجی دیہات میں داخل ہو کر عورتوں کو یرغمال بنا لیتے تھے تاکہ مرد جنگلات میں جا کر ربڑ جمع کریں۔
  • اگر مطلوبہ مقدار پوری نہ ہوتی تو مردوں کو کوڑے مارے جاتے، ہاتھ کاٹے جاتے، یا موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔

عورتوں پر مظالم

  • کوڑوں سے مارنا، زنا بالجبر، بھوکا رکھنا، اور دیگر وحشیانہ اذیتیں دینا عام تھا۔

بھوک اور بیماری

  • جب صحت مند مردوں کو زبردستی مزدوری پر لے جایا جاتا تو عورتیں، بچے، اور بوڑھے خوراک کی قلت اور بھوک سے مر جاتے۔
  • بھوک اور فاقہ کشی کے نتیجے میں وبائیں پھوٹ پڑیں، جیسے چیچک اور ٹی بی، جنہوں نے لاکھوں افراد کی جان لے لی۔

عالمی سطح پر ردِعمل

مارک ٹوین کا احتجاج

1905 میں امریکی مزاح نگار اور مصنف مارک ٹوین نے
"King Leopold’s Soliloquy: A Defense of His Congo Rule”
کے عنوان سے ایک طنزیہ تحریر لکھی۔

"جب لوگ بھوک اور بیماری سے مرنے لگتے ہیں یا میری سزا سے بچنے کے لیے جنگلوں میں چھپ جاتے ہیں، تو میری فوج ان کا پیچھا کر کے ان کو ذبح کر دیتی ہے، ان کی عورتوں کو یرغمال بناتی ہے، اور دیہات جلا دیتی ہے۔”

ڈاکیومینٹری

"Congo: White King, Red Rubber, Black Death” میں ان مظالم کی تفصیل دی گئی ہے۔

لیوپولڈ کو ہٹلر سے کیوں نہیں ملایا جاتا؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا لیوپولڈ دوم کو ہٹلر یا دیگر ظالم حکمرانوں کے ساتھ نہیں جوڑتی۔ نہ ہی تعلیمی ادارے اس کے مظالم پر روشنی ڈالتے ہیں اور نہ ہی میڈیا اسے نمایاں کرتا ہے، حالانکہ اس کے ہاتھوں لاکھوں افریقی مارے گئے۔

نتیجہ

لیوپولڈ دوم کی تاریخ ظلم، بربریت، اور استحصال کی ایک خونچکاں داستان ہے، جسے زیادہ تر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ کانگو کے معصوم عوام کے لیے اس کا دور ناقابلِ فراموش اذیت اور بربادی کا زمانہ تھا، جو تاریخ کے صفحات میں دب کر رہ گیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1