سوال
کسی عیسائی کو زکوة دے دینے کے بعد کیا دوبارہ زکوة ادا کرنی ہوگی؟
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کے مطابق:
زکوة کی ادائیگی کے اصول:
- مسلمانوں کے لیے مخصوص:
زکوة کا بنیادی حکم یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کے مالداروں سے لے کر مسلمانوں کے ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ہدایت دی:
"فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”
’’اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا‘‘۔
(صحیح البخاری: 1395)
خطا کے باوجود زکوة کی ادائیگی:
- اگر لاعلمی یا خطا کے سبب زکوة کسی غیر مسلم کو دے دی گئی ہو تو یہ ادا سمجھی جائے گی۔ تاہم آئندہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ زکوة مسلمانوں کے ضرورت مند افراد تک ہی پہنچائی جائے۔
- حدیث سے رہنمائی:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا واقعہ بیان کیا جو صدقہ کرتے ہوئے خطا سے چور، زانیہ اور مالدار شخص کو صدقہ دے بیٹھا:
"اس شخص سے کہا گیا کہ چور کو صدقہ دینے سے شاید وہ چوری چھوڑ دے، زانیہ کو صدقہ دینے سے شاید وہ زنا ترک کر دے، اور مالدار کو صدقہ دینے سے شاید وہ عبرت حاصل کر کے اللہ کے دیے ہوئے مال میں خرچ کرے۔”
(صحیح البخاری: 1421)
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگرچہ صدقہ نادانستہ طور پر مستحقین کے علاوہ کسی کو چلا جائے، تو بھی اس کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔
حکم:
- دوبارہ زکوة نکالنے کی ضرورت نہیں:
نادانستہ طور پر کسی عیسائی کو زکوة دے دینے کی صورت میں دوبارہ زکوة نکالنے کی ضرورت نہیں۔ - آئندہ احتیاط کریں:
زکوة کی ادائیگی میں آئندہ یہ اہتمام کریں کہ اسے مسلمانوں کے ضرورت مند افراد تک ہی پہنچایا جائے۔