سوال
پانی پر دم کر کے پھونکنے کا شرعی نکتہ نظر کیا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کے مطابق پانی پر دم کرنا اور پھونکنا شرعی طور پر جائز ہے، بشرطیکہ اس میں سلف صالحین سے منقول طریقہ اپنایا جائے اور اس میں کسی غیر شرعی عقیدے کا دخل نہ ہو۔
دلائل:
- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے:
"أَنَّهَا كَانَتْ لا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ”
[مصنف ابن أبي شيبة، كتاب الطب: 22895]
"ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں کہ پانی پر دم کیا جائے اور پھر اسے مریض پر بہایا جائے۔” - دیگر آثار:
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، امام مجاہد اور امام عکرمہ رحمہما اللہ سے بھی اس عمل کی تائید ملتی ہے۔
پھونک کی اقسام:
- نفخ: ہلکی پھونک۔
- نفس: سانس کے ذریعے ہوا دینا۔
- نفث: ہلکے تھتکار کے ساتھ پھونکنا۔
نفث کا حکم:
- یہ جائز ہے اور دم کی ایک مشروع شکل ہے، بشرطیکہ اس میں کسی غیر شرعی عقیدے کا دخل نہ ہو۔
- اگر کوئی عقیدہ رکھے کہ کسی مخصوص شخص (مثلاً ولی یا بزرگ) کی تھوک میں برکت ہے تو یہ عقیدہ شرک کے زمرے میں آ جائے گا۔
شرعی اصول:
- جو طریقہ کار سلف صالحین سے منقول ہے، اس کو اپنانا چاہیے۔
- کسی بھی اضافی عمل یا عقیدے سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو شریعت کے خلاف ہو۔