چینی سے شہد بنانے والی مکھیوں کے شہد کی خرید وفروخت کا حکم
چینی سے خوراک لے کر شہد بنانے والی مکھیوں کے شہد کی خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ شہد اس شہد کی کوالٹی سے مختلف ہو جو چینی سے غذا لے کر مکھیاں بنائیں تو ایسی صورت میں ہونے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خریدار کے لیے وضاحت کر دیے کہ یہ چینی سے تیار شدہ شہد ہے، تاکہ وہ اس دھوکا دہی کا مرتکب نہ ہو جس کو کرنے والے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
«من غش فليس مناه» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
اور اس کی بیع میں بے برکتی نہ پڑ جائے کیونکہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے علاحدہ نہ ہو جائیں تب تک انہیں اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور بے لاگ انداز میں ہر چیز واضح کردیں تو ان دونوں کی خرید و فروخت با برکت ہو جائے گی، اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا تو ان دونوں کی نیت سے برکت مٹ جائے گی۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ سچائی اور صاف صاف بیان کر کے معاملات کرے اور اسی انداز میں ان کے ساتھ پیش آئے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہوں یہی ایمان کی حقیقت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 13 صحيح مسلم 145/71]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو یہ پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور کر دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے اور اس حالت میں اس کی موت آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے پاس ایسے ہی آئے جس طرح وہ ان کا اپنے پاس آنا پسند کرتا ہو۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 4191 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3956]
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 9/230]
چینی سے خوراک لے کر شہد بنانے والی مکھیوں کے شہد کی خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ شہد اس شہد کی کوالٹی سے مختلف ہو جو چینی سے غذا لے کر مکھیاں بنائیں تو ایسی صورت میں ہونے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خریدار کے لیے وضاحت کر دیے کہ یہ چینی سے تیار شدہ شہد ہے، تاکہ وہ اس دھوکا دہی کا مرتکب نہ ہو جس کو کرنے والے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
«من غش فليس مناه» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
اور اس کی بیع میں بے برکتی نہ پڑ جائے کیونکہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے علاحدہ نہ ہو جائیں تب تک انہیں اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور بے لاگ انداز میں ہر چیز واضح کردیں تو ان دونوں کی خرید و فروخت با برکت ہو جائے گی، اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا تو ان دونوں کی نیت سے برکت مٹ جائے گی۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ سچائی اور صاف صاف بیان کر کے معاملات کرے اور اسی انداز میں ان کے ساتھ پیش آئے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہوں یہی ایمان کی حقیقت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 13 صحيح مسلم 145/71]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو یہ پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور کر دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے اور اس حالت میں اس کی موت آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے پاس ایسے ہی آئے جس طرح وہ ان کا اپنے پاس آنا پسند کرتا ہو۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 4191 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3956]
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 9/230]