تصوراتی منظر
آپ دن بھر کی مصروفیات کے بعد تھکے ہارے گھر لوٹتے ہیں، ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں اور مختلف چینلز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اچانک ایک ایسی خبر سامنے آتی ہے جو آپ کو حیران کر دیتی ہے کہ ایک شخص نے پانچ سالہ بچے کا قتل کر دیا۔
اب اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا اس عمل کو اخلاقی طور پر غلط کہنا درست ہے؟ تو یقیناً آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔ لیکن اگر سوال یہ ہو کہ یہ فعل معروضی طور پر غلط کیوں ہے؟ تو جواب زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
معروضیت کی تعریف
معروضیت (Objectivity) کا مطلب یہ ہے کہ حقائق ذاتی تعصبات، پسند اور ناپسند سے بالاتر ہوں۔ اخلاقیات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھائی اور برائی انسانی جذبات یا رائے پر منحصر نہیں بلکہ کسی مستقل بنیاد پر قائم ہیں۔ جیسے:
- ریاضیاتی حقیقت: 1 + 1 = 2، چاہے ہم جو بھی محسوس کریں۔
- سائنسی حقیقت: زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔
یہ سوال اہم ہے کہ اگر اخلاقیات معروضی ہیں تو ان کی بنیاد کیا ہے؟ یہ سوال "علم الاخلاق” کے دائرے میں آتا ہے۔
اخلاقیات کی معروضی حقیقت
اخلاقی اصولوں کو معروضی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:
- مثال: ایک معصوم بچے کا قتل ہر حال میں غلط سمجھا جائے گا، چاہے پوری دنیا اس پر متفق ہو یا نہ ہو۔
اخلاقیات انسان کی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان میں جوابدہی اور ذمہ داری کا تصور شامل ہے۔
[Markham, I. S. (2010). Against Atheism, p. 34] کے مطابق:
اخلاقی زبان کسی خارجی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہماری دنیا سے ماورا ہوتی ہے۔
اخلاقیات اور خدا کا تعلق
اخلاقیات کی معروضی حقیقت خدا کی موجودگی سے جڑی ہوئی ہے، کیونکہ خدا انسان سے ماورا ہستی ہے جو تمام اچھائیوں کا منبع ہے۔
- اسلامی نظریہ: اللہ رب العٰلمین کی ذات کامل ہے اور وہی خیر و بھلائی کا سرچشمہ ہے۔
- اللہ کے ناموں میں سے ایک "البر” ہے، جس کا مطلب ہے ہر قسم کی اچھائی کا منبع۔ (سورۃ الطور، آیت 28)
- جب اللہ کوئی حکم دیتا ہے، تو وہ ہمیشہ اچھائی پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ وہ خود سراپا اچھائی ہے۔ (سورۃ الاعراف، آیت 28)
یوتھائفرو کا مغالطہ (Euthyphro’s Dilemma)
ملحدین ایک فلسفیانہ مغالطہ پیش کرتے ہیں:
کیا چیزیں اس لیے اچھی ہیں کہ خدا نے ان کا حکم دیا؟ یا خدا ان کا حکم دیتا ہے کیونکہ وہ اچھی ہیں؟
اس کا جواب:
یہ سوال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ اچھائی خدا سے الگ کوئی چیز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا خود اچھائی کا منبع ہے۔
[Akhtar, S. (2008). The Qur’an and the Secular Mind, p. 99]
اخلاقیات کے دیگر ممکنہ ماخذ
- حیاتیات (Biology):
اخلاقیات کو فطری انتخاب کا نتیجہ کہنا درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو جیسے جانوروں میں مختلف رویے ہیں، ویسے ہی انسانی اخلاق بھی مختلف ہوتے۔
[Darwin, C. (1874). The Descent of Man, p. 99] - معاشرتی دباؤ:
معاشرتی اقدار معروضی اخلاقیات کی وضاحت نہیں کر سکتیں۔ مثال کے طور پر، نازی جرمنی میں مظالم کو درست قرار دیا گیا تھا، لیکن کیا وہ معروضی طور پر ٹھیک تھے؟ - اخلاقی حقیقت پسندی:
یہ نظریہ کہتا ہے کہ اخلاقی سچائیاں خودبخود وجود رکھتی ہیں، لیکن یہ وضاحت نہیں کرتا کہ وہ کیوں وجود رکھتی ہیں اور ہمیں ان پر عمل کیوں کرنا چاہیے۔
معروضی اخلاقیات کی بنیاد
صرف خدا کا وجود اخلاقیات کو معروضی اور حقیقی بنانے کے لیے ایک مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے:
- وہی ایک ایسی ہستی ہے جو اخلاقی سچائیوں کو بیان کرنے اور ان کی ذمہ داری کا شعور دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
- اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایات مکمل انصاف اور بھلائی پر مبنی ہیں۔ (سورۃ البقرہ، آیت 163، سورۃ الحشر، آیت 24-22)
اعتراضات کا جائزہ
1. اخلاقیات کی معروضیت کا انکار
ملحدین اگر معروضی اخلاقیات کو ماننے سے انکار کریں تو:
- وہ کسی بھی ظلم یا ناانصافی پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
- ان کے اعتراضات صرف ذاتی آراء بن کر رہ جاتے ہیں۔
2. اخلاقی علمیت بمقابلہ علم الوجود
یہ دلیل اخلاقی علمیت (ہم اچھائی کو کیسے جانتے ہیں؟) سے متعلق نہیں، بلکہ اخلاقی علم الوجود (اچھائی کی بنیاد کیا ہے؟) سے متعلق ہے۔
نتیجہ
خدا کی ذات کامل ہے اور تمام اچھائیوں کا منبع ہے۔
معروضی اخلاقیات کے لیے خدا کا وجود لازم ہے، کیونکہ وہی اخلاقی ذمہ داری اور معروضی سچائیوں کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
خدا کا جاننا، خیر اور بھلائی کو جاننے کے مترادف ہے۔