نانی کی وراثت میں حصہ داری کا شرعی حکم

سوال

ایک سائلہ نے سوال کیا کہ ان کی والدہ 31 اگست 1989 کو وفات پا چکی ہیں، جب کہ ان کی نانی 31 دسمبر 1989 کو وفات پا چکی ہیں، یعنی والدہ کا انتقال نانی سے پہلے ہو چکا ہے۔ نانی کی اولاد میں دو بیٹے اور بیٹیاں شامل تھیں۔ والدہ کی وفات نانی کی وفات سے پہلے ہوئی، جب کہ باقی دو بھائی اور ایک بہن کا انتقال نانی کے انتقال کے بعد ہوا۔ نانی کے کوئی بھائی بہن بھی نہیں تھے۔

سائلہ نے یہ سوال کیا کہ کیا نانی کے ورثے میں سے انہیں کچھ مل سکتا ہے، کیونکہ وہ ضرورت مند ہیں، لیکن ان کے ماموں اور خالہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ ان کی والدہ نانی کے انتقال سے پہلے فوت ہو چکی تھیں۔ اس مسئلے میں رہنمائی فراہم کریں۔

جواب از فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

اس مسئلے میں سائلہ کے ماموں اور خالہ کے بیٹے درست کہہ رہے ہیں۔ شریعت کے اصول کے مطابق، میت سے پہلے وفات پانے والے کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ چونکہ سائلہ کی والدہ نانی کے انتقال سے پہلے وفات پا چکی تھیں، اس لیے نانی کی وراثت میں ان کا یا ان کے بچوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1