ختم نبوت اور ارتقائی نظریے کا تنقیدی جائزہ

ارتقائی نظریہ اور ختم نبوت کا ربط

کچھ اہلِ علم نے انبیاء کی بعثت کو انسانی سماج کی ارتقائی ضروریات کے تحت بیان کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ مفروضہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں اس نظریے کے حق میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔

انسانی ارتقاء اور ختم نبوت

یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ جیسے جیسے انسانی معاشرہ ترقی کرتا گیا، اس کی ضروریات بدلتی گئیں، اور ان ضروریات کے مطابق اللہ نے مختلف انبیاء کو مختلف شریعتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ لیکن اس نظریے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ختم نبوت کو اس میں شامل کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ انسانی ارتقاء تو قیامت تک جاری رہے گا۔

اس خلا کو پر کرنے کے لیے ایک نیا مفروضہ تراشا گیا کہ رسول اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت انسان اپنی "طفولیت” سے نکل کر "عہدِ شباب” میں داخل ہوچکا تھا۔ گویا اب انسان عقل و شعور کے اس مقام پر تھا کہ اسے ایک آخری پیغام دے کر باقی کا سفر اپنی عقل کی روشنی میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

مفروضے کی حقیقت: ایک غیر ثابت دعوی

یہ تعبیر دراصل ایک "فرضی کہانی” ہے، جسے نصوصِ شریعہ کے بغیر محض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے۔ اس دعوے کے حق میں جو مثالیں دی جاتی ہیں، ان کا ارتقائی نظریے سے تعلق جوڑنا درست نہیں۔

1. دو بہنوں کو نکاح میں رکھنا:

شریعت محمدیہ ﷺ میں دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا، جبکہ پہلے یہ جائز تھا۔ لیکن یہ تبدیلی انسانی تمدن یا سماجی ارتقاء سے کیوں کر جڑی ہو سکتی ہے؟

2. حلال و حرام کے احکامات:

امتِ محمدیہ ﷺ کے لیے کچھ ایسے جانوروں کو کھانا حلال قرار دیا گیا جو پچھلی امتوں پر حرام تھے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے نظامِ ہاضمہ میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ یا یہ کہ وہ جانور پہلے ناپید تھے؟ یہ تمام باتیں ارتقاء کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

تبدیلیِ احکامات کا قرآن کریم میں تذکرہ

1. قتل کے قوانین میں نرمی:

بنی اسرائیل کو قتل کے بدلے خون بہا لینے کی اجازت نہیں تھی، جبکہ شریعتِ محمدیہ ﷺ میں یہ رعایت دی گئی۔ قرآن نے اس تبدیلی کو رحمت قرار دیا:

ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ
"یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف (آسانی) اور رحمت ہے۔”
(البقرۃ: 178)

اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں:

  • احکامات کی تبدیلی انسانی خواہشات یا حالات کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ شارع کے حکم پر منحصر ہے۔
  • یہ تبدیلی رحمت الٰہی کا مظہر ہے، نہ کہ سماجی ارتقاء کا۔

2. بنی اسرائیل پر سختی:

بنی اسرائیل پر ان کی سرکشی کے باعث سخت قوانین نافذ کیے گئے تھے، جو امتِ محمدیہ ﷺ پر ختم کر دیے گئے۔ یہ احکامات کسی ارتقاء کے باعث نہیں، بلکہ اللہ کی رحمت کی بنا پر نرم کیے گئے۔

ارتقائی تعبیر کی خامیاں

1. انسانی "عہدِ شباب” کا مفروضہ:

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انسان چودہ سو سال پہلے "عہدِ شباب” میں داخل ہوا، تو مغربی مفکرین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی اصل فکری ترقی سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہوئی، جبکہ اس سے قبل انسان افسانوں اور کہانیوں پر یقین رکھتا تھا۔

2. تبدیلی کا تسلسل:

صنعتی انقلاب کے بعد انسانی معاشرتی و معاشی مسائل یکسر بدل چکے ہیں۔ اگر ارتقاء کا یہ اصول درست ہوتا، تو اس کے تحت شریعت کے کئی احکامات منسوخ ہو چکے ہوتے اور نئے احکامات شامل کیے جاتے۔ لیکن شریعت محمدیہ ﷺ کے احکامات قیامت تک کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اس لیے یہ ارتقائی تعبیر قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1