پرویز صاحب کے نظریات اور ان کا تجزیہ
پرویز صاحب نے قرآن کی ان آیات میں جہاں "اللہ اور رسول” کی اطاعت کا ذکر آیا ہے، ان الفاظ کی تشریح "مرکزِ ملت” یا "مرکزِ نظام اسلامی” کے طور پر کی۔ ان کے خیالات کا خلاصہ ان کی کتب سے پیش کیا جاتا ہے:
- "اللہ اور رسول سے مراد مرکزِ نظامِ اسلامی ہے۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج4، ص340)
- "اللہ اور رسول سے مراد اسلامی مملکت یا قرآنی نظامِ حکومت ہوتا ہے۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج6، ص70)
- "اللہ اور رسول سے مراد وہ مرکزِ نظامِ اسلامی ہے جہاں قرآنی احکام نافذ ہوں۔” (معراجِ انسانیت، ص318)
یہ تعبیر نہ صرف قرآن کی روح سے متصادم ہے بلکہ کئی اہم سوالات اور الجھنیں بھی پیدا کرتی ہے، جن کا تجزیہ ذیل میں کیا گیا ہے:
پرویز صاحب کے نظریے میں پائے جانے والے تضادات
1. نظامِ اسلام کے قیام سے پہلے "اللہ اور رسول” کی اطاعت کا مفہوم؟
اگر "اللہ اور رسول” سے مراد "اسلامی نظام” لیا جائے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکی دور میں، جب اسلامی نظام موجود ہی نہیں تھا، ان آیات کا کیا مطلب تھا؟
- مکی دور میں بھی قرآن بار بار "اللہ اور رسول” کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، لیکن اس وقت نہ کوئی ریاست قائم تھی اور نہ "مرکزِ ملت” کا وجود۔
- مثال کے طور پر، پرویز صاحب خود لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد ہی حقیقی اسلامی حکومت کی بنیاد پڑی۔ (معارف القرآن، ج4، ص568)
تو پھر مکی دور کی وہ تمام آیات، جو "اللہ اور رسول” کی اطاعت کا حکم دیتی ہیں، ان کا مفہوم کیا ہوگا؟ کیا ان آیات کا اطلاق اس وقت کے مسلمانوں پر نہیں ہوتا تھا؟
2. ایک "اللہ اور رسول” یا مختلف؟
اگر "اللہ اور رسول” کو ہر مسلم ریاست کے "مرکزِ ملت” سے تعبیر کیا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ:
- کیا ہر مسلم ریاست کے لیے ایک الگ "اللہ اور رسول” ہوگا؟
- اگر پوری ملتِ اسلامیہ کو ایک ہی "مرکزِ ملت” کے تحت رکھا جائے تو اس کا تعین کیسے ہوگا؟ کیا اس کے لیے جنگ کی جائے گی یا الیکشن منعقد ہوگا؟
یہ نظریہ مزید انتشار کا سبب بنتا ہے اور اس کا عملی نفاذ ناممکن نظر آتا ہے۔
3. "مرکزِ ملت” پر ایمان یا صرف اطاعت؟
قرآن کریم واضح طور پر "اللہ اور رسول” پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ:
-
- ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ…﴿١٣٦﴾ (النساء)
"اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔” - ﴿فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ…﴿١٥٨﴾ (الاعراف)
- ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ…﴿١٣٦﴾ (النساء)
"پس اللہ اور اس کے رسول، نبی پر ایمان لاؤ۔”
"مرکزِ ملت” پر ایمان لانے کی بات نہ صرف لغو معلوم ہوتی ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔
4. "خدا و رسول” کے نام پر آمریت؟
پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ "مرکزِ ملت” ہی "اللہ اور رسول” ہے، ایک خطرناک آمریت کو جنم دیتا ہے۔
- اگر "مرکزِ ملت” ہی "خدا و رسول” بن جائے تو اس پر تنقید یا اختلاف ممکن نہیں رہے گا، کیونکہ "خدا و رسول” کے فیصلے کو چیلنج کرنا گناہ قرار پائے گا۔
- یہ صورت حال نہ صرف دین کے ساتھ بدترین مذاق ہے بلکہ ایسی آمریت کا تصور پیش کرتی ہے جو تاریخ کے بدترین آمروں کے نقش قدم پر ہے۔
ایک مغالطہ اور اس کی حقیقت
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک اسلامی حکومت کو اگر "خدا و رسول” کی حکومت کہا جا سکتا ہے تو اس حکومت کے سربراہ کو "خدا و رسول” کیوں نہیں کہا جا سکتا؟
حقیقت:
- "اسلامی حکومت” کو "خدا و رسول” کی حکومت کہنا ایک استعاراتی بات ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت اللہ اور رسول کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔
- لیکن اس حکومت کے سربراہ کو بذاتِ خود "خدا و رسول” قرار دینا قطعی گمراہ کن ہے۔
- اسلامی حکومت غلط فیصلے کر سکتی ہے اور اس پر تنقید جائز ہے، جیسا کہ مودودی صاحب نے وضاحت کی:
"اگر حکومت قرآن و سنت کے خلاف کوئی حکم دے تو مسلمانوں کو حق ہے کہ وہ اس پر اعتراض کریں۔” (ترجمان القرآن، منصبِ رسالت نمبر، ص171-172)
پرویز صاحب کی تشریح کے سنگین نتائج
پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ "اللہ اور رسول” سے مراد "مرکزِ ملت” ہے، مندرجہ ذیل خطرات پیدا کرتا ہے:
- قرآنی آیات کے مفہوم کو مسخ کرنا۔
- اسلامی اصولوں کے تحت کسی حکومت پر تنقید کے حق کو ختم کرنا۔
- دین کے نام پر ایسی آمریت کو فروغ دینا جو قرآن و سنت کے خلاف ہے۔