نماز کے لیے ممنوع لباس کا بیان
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز کے لیے ممنوع لباس کا بیان

چونکہ مردوں پر ہر وقت ریشمی لباس پہننا حرام ہے لہذا ایسا لباس پہن کر نماز بھی نہیں پڑھنی چاہیے ۔ حرمت کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تلبسوا الحرير فإنه من لبسه فى الدنيا لم يلبسه فى الآخرة
[بخاري 5830 ، 5834 ، كتاب اللباس : باب لبس الحرير وافتراشه للرجال ، مسلم 6069 ، أحمد 20/1 ، نسائي 200/8]
” تم ریشم نہ پہنو بلاشبہ جو اسے دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ “
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ سلم نے فرمایا:
إنما يلبس الحرير فى الدنيا من لا خلاق له فى الآخرة
[بخاري 5835 ، أيضا ، مسلم 2069]
”دنیا میں صرف وہی شخص ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ “
➌ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحل الذهب والحرير للإناث من أمتى و حرم عل ذكورها
[صحيح: صحيح ترمذي 1404 ، كتاب اللباس : باب ما جاء فى الحرير والذهب ، ترمذى 1720 ، أحمد 392/4 ، نسائي 161/8 ، بيهقى 425/2]
” سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں پر حلال کیا گیا ہے جبکہ مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ “
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ مردوں پر ریشم پہننا حرام ہے۔

چار انگلیوں کے برابر ریشم پہننا جائز ہے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي عن لبس الحرير إلا موضع إصبعين أو ثلاثة أو أربعة
[بخاري 5828 ، 5829 ، 5830 ، كتاب اللباس : باب لبس الحرير وافتراشه ، مسلم 2069 ، أبو داود 4042 ، نسائي 20238 ، ابن ماجة 3593 ، أحمد 15/1]
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع کیا ہے الا کہ دو انگلیوں یا تین یا چار کے برابر ہو۔ “

ریشم پر بیٹھنا بھی ممنوع ہے

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهانا النبى صلی اللہ علیہ وسلم عن ليس الحرير و الديباج وأن نجلس عليهم
[ بخاري 5837 ، كتاب اللباس : باب افتراش الحرير]
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ “
(جمہور ) اس حدیث کی وجہ سے ریشم پر بیٹھنا حرام ہے ۔
[فتح البارى 472/11 ، الأم 185/1 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء 67/2 ، الجامع الصغير 476 ، الخرشي 245/1 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف 475/1]
علماء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ ریشم کی حرمت کے باوجود کیا اسے پہن کر پڑھی گئی نماز کفایت کر جائے گی یا نہیں؟
(جمہور ) اگرچہ یہ کپڑا پہننا حرام ہے لیکن نماز ہو جائے گی۔
(مالکؒ) ایسا شخص نماز کے وقت میں دوبارہ نماز ادا کرے گا۔
[نيل الأوطار 556/1 ، فتح الباري 38/2]
(راجح) اگر کوئی مطلق طور پر ریشم پہننا حرام قراردیتا ہے تو یقیناً حالت نماز میں اسے پہنا بالا ولی حرام ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو پہنے ہوئے عبادت الہی میں داخل ہو رہا ہے کہ جسے اس نے حرام قرار دیا ہے، تا ہم کیا ایسے شخص کی نماز باطل ہو جائے گی ؟ تو یہ بات کسی ایسی واضح دلیل کی محتاج ہے کہ جو اس پر دلالت کرتی ہو ( اور ایسی کوئی دلیل ہمارے علم میں نہیں ) ۔
[السيل الجرار 163/1]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من لبس ثوب شهرة فى الدنيا ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيمة
[حسن : صحيح أبو داود 3399 ، كتاب اللباس : باب فى لبس الشهرة ، أبو داود 4029 ، أحمد 139/2 ، ابن ماجة 3607]
” جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت ذلت کا لباس پہنائیں گے ۔ “
شہرت کے لباس سے مراد ایسا کپڑا ہے جو لوگوں کے کپڑوں کے رنگوں سے رنگ میں مختلف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان شہرت پکڑتا ہو، لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھتی ہوں اور وہ شخص تکبر و تعجب کے ساتھ ان پر فخر و غرور کرتا ہو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ شہرت کا لباس پہننا حرام ہے اور یاد رہے کہ یہ حدیث محض نفیس لباس کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ یہ چیز تو ایسے شخص سے بھی حاصل ہو سکتی ہے جو فقراء و مساکین کے لباس کے مخالف کپڑا پہنے تا کہ لوگ اسے دیکھیں اور اس کے لباس سے تعجب کریں۔
[نيل الأوطار 596/1]
( غصب شدہ کپڑے میں بھی نماز نہ پڑھی جائے ) کیونکہ یہ غیر کی ملکیت ہے اور بالا جماع حرام ہے۔
[الروضة الندية 23431]
لیکن اگر کوئی ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں ؟ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ ”یہ بات کہ ایسے کپڑے میں اس کی نماز صحیح نہیں کسی ایسی دلیل کی محتاج ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو۔“
[السيل الجرار 163/1]
( ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) ایسے لباس میں نماز صحیح ہے۔
[نيل الأوطار 553/1]
(راجح) ایسا شخص غصب کے گناہ کا مستحق تو ہوگا لیکن کیا اس کی نماز بھی نہیں ہوگی ؟ تو اس کی کوئی واضح دلیل ہمارے علم میں نہیں۔ البتہ اگر اس کے پاس غصب شدہ کپڑے کے علاوہ ستر ڈھانپنے کے لیے کوئی لباس یا کوئی درخت وغیرہ نہ ہوتو اللہ تعالیٰ نے سدرمق کے لیے غیر کا مال بھی حلال کیا ہے۔
[المغني لابن قدامة 316/2 ، السيل الجرار 164/1]

معصفر لباس پہننا ممنوع ہے

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر دو معصفر کپڑے دیکھے تو فرمایا:
ان هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها
[مسلم 2077 ، كتاب اللباس والزينة : باب النهي عن لبس الرجل الثوب المعصفر ، أحمد 162/2 ، نسائي 203/8]
” بے شک یہ کفار کا لباس ہے اس لیے تم اسے مت پہنو ۔ “
ایسا کپڑا دوران نماز پہنا بالاً ولی ممنوع ہے۔ واضح رہے کہ معصفر ایسے کپڑے کو کہتے ہیں کہ جسے ایک خاص زرد رنگ کی بوٹی سے رنگا گیا ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے