کیا ازار لٹکانے سے وضوء یا نماز ٹوٹ جاتی ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
اذهب فتوضا
” جاؤ وضوء کرو۔ “
وہ گیا اور وضوء کر کے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسے وضوء کرنے کو کہا۔ پھر ایک آدمی کے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آن صلى و هو مسبل إزاره وإن الله لا يقبل صلاة رجل مسل
[ضعيف : ضعيف أبو داود 124 ، كتاب الصلاة : باب الإسبال فى الصلاة ، أبو داود 638 ، بيهقي 241/2 ، أحمد 379/5 ، اس كي سند ميں ابو جعفر راوي هے كه جس سے بيان كرنے والا یحیٰی بن ابي كثير هے اور وه انصاري مدني موذن هے جو كه مجہول هے جيسا كه امام ابن قطانؒ نے يہي كها هے اور تقريب التهذيب ميں حافظ ابن حجرؒ رقمطراز هيں كه اس كي حديث كمزور هے۔ شيخ البانيؒ بيان كرتے هيں كه جس نے مذكوره حديث كي سند كو صحيح كها اسے وهم هوا هے۔ المشكاة 761 ، 238/1 ، امام شوكانيؒ اور امام منذريؒ نے بهي ابو جعفر راوي كو مجہول قرار ديا هے۔ نيل الأوطار 599/1 ، مختصر سنن أبى داود 324/1]
” یہ اپنا تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور بے شک اللہ تعالیٰ ( ٹخنوں سے نیچے ) تہبند لٹکانے والے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ۔“
چونکہ یہ روایت ضعیف ہے اس لیے قابل حجت نہیں علاوہ ازیں کسی محدث نے بھی اسبال اِزار کو نواقض وضوء یا مبطلات صلاۃ میں شامل نہیں کیا لہذا ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانے والے کا وضو اور نماز تو قائم رہے گی لیکن اس ممنوع فعل کے ارتکاب کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ضرور ہوگا۔
کیا ازار لٹکانے والے امام کے پیچھے نماز درست ہے
(ابن بازؒ ) علماء کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح یہی ہے کہ ازار لٹکانے والے شخص اور اس طرح کے دیگر نافرمانوں کے پیچھے نماز درست ہے۔ لیکن مسئولین کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو امام بنانے سے احتراز کریں۔
[مجلة الدعوة رقم 913]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امرت ان أسجد على سبعة ولا أكف شعرا ولا ثوبا
[مسلم 490 ، كتاب الصلاة : باب أعضاء السجود والنهى عن كف الشعر والثوب و عقص الرأس فى الصلاة ، نسائي 210/2 ، ابن ماجة 1040 ، ابن خزيمة 782]
” مجھے سات ( ہڈیوں ) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ( اور یہ بھی کہ ) میں بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں ۔“
امام ابن خزیمہؒ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے کہ :
باب الزجر عن كف الثياب فى الصلاة
[صحيح ابن خزيمة 383/1]
” نماز میں کپڑے سمیٹنے سے ڈانٹ کا بیان ۔“
(نوویؒ) اس سے اجتناب کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
فلا خير فيه
[كما فى المدونة الكبرى 96/1]
” اس میں خیر نہیں ہے۔“
مزید فرماتے ہیں کہ اس ممانعت کے باوجود اگر کوئی اس طرح نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز تو جائے گی لیکن اس نے یہ برا کیا ۔
[شرح مسلم 209/4]