نماز کی شرائط طہارت کا بیان
لغوی وضاحت: لفظ ” شروط “ شرط کی جمع ہے۔ جس کا معنی” کسی چیز کولازم کر لینا“ ہے۔
[القاموس المحيط ص/605]
اصطلاحی تعریف: ما يلزم من عدمه عدم الحكم ولا يلزم من وجوده وجود المحكم
[الإحكام للأمدى 12/1 ، الموافقات للشاطبي 187/1 ، البحر المحيط للزركشي 309/1]
”جس کی نفی سے حکم کی نفی لازم ہو جبکہ اس کے وجود سے حکم کا وجود لازم نہ ہو ۔ “ ( مثلا نماز کے لیے وضوء ) ۔
یادر ہے کہ کسی چیز کا شرط ہونا اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ مل جائے جو اس کی نفی سے مشروط کی نفی پر دلالت کرتی ہو۔
[السيل الجرار 157/1]
➊ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ
[المدثر : 4 – 5]
”اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کرو اور ناپاکی کو چھوڑ دو۔“
➋ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے کہا :
وهل كان النبى صلى الله عليه وسلم يـصـلـي فى الثوب الذى يجامع فيه
[صحيح : صحيح أبو داود 352 ، كتاب الطهارة : باب الصلاة فى الثوب الذى يصيب أهله فيه ، أبو داود 366 ، نسائي 155/1 ، ابن ماجة 540 ، أحمد 325/6 ، ابن خزيمة 776 ، شرح السنة 523 ، بيهقي 410/2]
” کیا نبی صلى الله عليه وسلم اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے جس میں مباشرت کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا:
نعم إذا لم يكن فيه أذى
” ہاں جب اس میں گندگی نہ ہوتی۔ “ ( اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اگر گندگی ہوتی تو ان میں نماز نہ پڑھتے ۔)
➌ حضرت جابر سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ :
اصلي فى الثوب الذى آتى فيه أهلي
کیا میں اس کپڑے میں نماز پڑھ لوں جس میں میں اپنی بیوی سے جماع کرتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
ونعم، إلا أن ترى فيه شيئا فتغسله
”ہاں الا کہ اگر تو اس میں کوئی چیز (یعنی گندگی ) دیکھے تو اسے دھولے۔“
[صحيح : صحيح ابن ماجة 440 ، كتاب الطهارة وسننها : باب الصلاة فى الثوب الذى يجامع فيه ، ابن ماجة 542 ، أحـمـد 89/5 ، أبو يعلى 7460 ، شرح معاني الآثار 53/1 ، حافظ بوصيریؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ الزوائد 215/1]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا واجب ہے جو شخص ایسی حالت میں نماز پڑھ لے کہ اس کے کپڑوں کونجاست لگی ہو تو وہ واجب کا تارک ہو گا لیکن اس کی نماز باطل نہیں ہوگی جیسا کہ شرط کے فقدان سے ہوتا ہے کیونکہ یہ واجب ہے شرط نہیں جیسا کہ ایک حدیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست لگی جوتیوں سمیت نماز ادا کر لی، پھر علم ہونے پر دوبارہ نماز نہ پڑھی۔
[نيل الأوطار 608/1 ، السيل الجرار 158/1]
کیا لاعلمی سے نجاست لگے کپڑوں میں پڑھی ہوئی نماز ہو جائے گی
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابوحنیفہؒ) ایسے شخص کی نماز باطل ہو جائے گی۔
(مالکؒ) اگر بھول کر یا علم نہ ہونے سے ایسا کرے تو نماز ہو جائے گی۔
[المجموع 163/3 ، المغنى 109/1 ، كشاف القناع 22/1 ، المهذب 59/1 ، الشرح الصغير 64/1 ، فتح القدير 179/1 ، الدر المختار 373/1 ، مغنى المحتاج 188/1]
(راجح) جب کوئی شخص نماز سے فارغ ہو اور اپنے کپڑے یا بدن پر نجاست دیکھے کہ جس کا اسے علم نہیں تھا ۔۔۔۔ تو اس کی نماز صحیح ہے اس پر دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہیں ۔
[تمام المنة ص/55]
اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز جوتیاں اتار دیں تو لوگوں نے بھی اپنی جوتیاں اتار دیں۔
فراغت نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الم خامتم نعالكم ؟
” تم نے اپنی جوتیاں کیوں اتاریں؟“ تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتیاں اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ ان میں گندگی ہے (اس لیے میں نے انہیں اتار ديا )
فإذا جاء أحدكم المسجد فليقلب نعليه ولينظر فيهما فان رأى خبثا فليمسه بالأرض ثم ليصل فيهما
[صحيح : صحيح أبو داود 605 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى النعل ، إرواء الغليل 284 ، أبو داود 650 ، ابن أبى شيبة 417/2 ، دارمي 320/1 ، ابن خزيمة 1017 ، ابن حبان 360 ، حاكم 260/1 ، بيهقى 431/2 ، أحمد 20/3]
” جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنی جوتیوں کو پھیر کر ان میں دیکھے، اگر گندگی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑے اور ان جوتیوں میں نماز پڑھ لے۔“
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزی کے متعلق فرمایا کہ :
يغسل ذكره و يتوضا
[مسلم 303 ، كتاب الحيض : باب المذى، مؤطا 40/1 ، أبو يعلى 314 ، أبو داود 208]
” وہ اپنے ذکر ( یعنی شرمگاہ) کو دھو لیں اور وضو لیں۔“
➋ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تیری ماہواری ختم ہو جائے :
فاغسلي عنك الدم وصلي
[بخاري 306 ، كتاب الحيض : باب الاستحاضة ، مسلم 333 ، أبو داود 282 ، أبو عوانة 319/1 ، ترمذي 125 ، ابن ماجة 621]
”اپنے (بدن) سے خون دھولے اور نماز پڑھ لے ۔“
(شوکانیؒ) بدن کی طہارت اگرچہ واجب ہے لیکن نماز کے لیے اس کے شرط ہونے کی کوئی واضح دلیل ( ہمارے علم میں ) نہیں ہے۔
[السيل الجرار 158/1]