پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان و اقامت کہنا
اقامت کہنا تو بالکل ثابت نہیں ہے کیونکہ جس حدیث میں اس کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہے جیسا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ولد له ولد فأذن فى أذنه اليمنى وأقام فى أذنه اليسرى لم تضره ام الصبيان
[موضوع: الضعيفة 320/1 ، 2321 ، إرواء الغليل 1174 ، تلخيص الحبير 149/4 ، شعب الإيمان للبيهقي 8620]
”جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہے تو اسے ام صبیان کی بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی۔“
اس سلسلے میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی روایت بھی مستند نہیں ہے۔
[تلخيص الحبير 273/4]
علاوہ ازیں اذان کہنے کے متعلق روایت بھی ضعیف ہے اس کی سند میں عاصم بن عبید اللہ راوی کی صحت میں اختلاف ہے۔
[تهذيب التهذيب 5 / 46 ، تقريب التهذيب 384/1 ، ميزان الاعتدال 353/2]
البتہ دیگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ :
أذن فى أذن الحسن بن على حين ولدته فاطمة بالصلاة
[ حسن: صحيح ترمذي 1224 ، كتاب الاضاحي: باب الازان فى اذن المولود ، صحيح ابوداود 4258 ،اروا ٗ الغليل 1173 ، ترمذي 1516 ، أبو داود 5105 ، أحمد 9/6-391]
”جس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو جنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز کے لیے (کہی جانے والی ) اذان کی طرح اذان کہی ۔“
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) یہ حدیث ضعیف ہے لیکن حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے کہ جسے امام ابو یعلی موصلیؒ اور امام ابن سنیؒ نے روایت کیا ہے مضبوط و قوی ہو جاتی ہے۔
[تحفة الأحوذى 91/1]
(ترمذیؒ) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے ۔
[ترمذي 1516]
امت کا متواتر و متوارث عمل بھی اسے قابل احتجاج بنادیتا ہے۔
( ابن قیمؒ) انہوں نے اپنی کتاب زاد المعاد میں حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی ہے ۔
[زاد المعاد 333/2]
واضح رہے کہ اس اذان کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے جب بھی مسلمان اس پر قادر ہو اذان کہہ دے۔
[أحسن الفتاوى 276/2]
جمعہ کی دو اذانیں ثابت نہیں ہیں اس کا مفصل بیان آئندہ ” باب صلاة الجمعة “ میں آئے گا۔