سوال
کیا سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 سے میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے استدلال کرنا درست ہے؟ اس بارے میں وضاحت فرمائیں:
قُلۡ بِفَضۡلِ ٱللَّهِ وَبِرَحۡمَتِهِۦ فَبِذَٰلِكَ فَلۡيَفۡرَحُواْ هُوَ خَيۡرٞ مِّمَّا يَجۡمَعُونَ
[یونس: 58]
آپ فرمائیں کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
مختصر یہ ہے کہ علماء نے اس موضوع پر مفصل تحریریں لکھی ہیں، اور جہاں تک میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے اس آیت کے استدلال کا تعلق ہے، اس پر واضح دلائل موجود ہیں:
محدث فورم پر دستیاب مواد
شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ نے خود اس حوالے سے "میلاد النبی ﷺ” پر طاہر القادری کی کتاب کا جواب دیا ہے، جو محدث فورم کی ویب سائٹ پر باآسانی دستیاب ہے۔
فتویٰ ثنائیہ میں وضاحت
فتویٰ ثنائیہ میں میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے اس آیت پر چار سے چھہ سطروں میں بحث کی گئی ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
◄ احناف اپنے اصولوں کے مطابق اجتہاد، استنباط اور استخراج کے ذریعے مسائل اخذ کرنے کے پابند ہیں، لیکن مقلد کو ان امور کی اجازت نہیں۔
◄ احناف کا موقف ہے کہ قول امام پر فتویٰ دینا واجب ہے، اور اس کی حمایت میں انہوں نے متداول کتب جیسے ھدایہ، قدوری وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی وضاحت
مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب خطابات میلاد میں لکھا ہے کہ:
◄ صاحب اجتہاد کا دروازہ چوتھی صدی ہجری سے بند ہو چکا ہے۔
◄ تمام مسائل آئمہ اربعہ سے اخذ کیے جائیں گے۔
◄ مقلد کو استنباط اور استخراج کی اجازت کا ذکر متداول کتب میں کہیں نہیں ملتا۔
خلاصہ کلام
اس آیت (یونس: 58) سے میلاد النبی ﷺ کا استدلال نہ صرف ان کے اصول کے خلاف ہے بلکہ اجتہاد اور استنباط کے معاملے میں مقلدین کے دائرہ کار سے بھی باہر ہے۔