حضرت ابو ہریرہؓ پر الزامات کا جائزہ
فیس بک پر ایک خودساختہ "مفکر” نے حال ہی میں حضرت ابو ہریرہؓ پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ ان الزامات میں کہا گیا کہ حضرت عمرؓ نے انہیں "اللہ کا دشمن” اور "خائن” کہا اور ان پر کوڑے بھی برسائے۔ مزید یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ حضرت ابو ہریرہؓ جھوٹی حدیثیں گھڑتے تھے۔ اس مضمون میں ان الزامات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے گا۔
پہلا الزام: حضرت عمرؓ کا حضرت ابو ہریرہؓ کو خائن کہنا
حضرت عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کے درمیان ایک واقعہ طبقات ابن سعد میں نقل ہوا ہے، جس کی بنیاد پر یہ الزام تراشی کی گئی۔ واقعہ یہ ہے:
- حضرت عمرؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو بحرین کا گورنر مقرر کیا تھا۔
- واپسی پر حضرت ابو ہریرہؓ کے پاس بارہ ہزار درہم تھے۔
- حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ یہ مال کہاں سے آیا؟ اور جذبات میں انہیں "دشمن خدا” کہہ دیا۔
- حضرت ابو ہریرہؓ نے جواب دیا کہ یہ ان کے ذاتی گھوڑوں اور تیر اندازی کی کمائی ہے۔
- حضرت عمرؓ نے ان کی وضاحت کے باوجود یہ رقم لے لی۔
بعد ازاں، جب حضرت عمرؓ نے انہیں دوبارہ گورنر بنانے کی پیشکش کی تو حضرت ابو ہریرہؓ نے انکار کر دیا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے انہیں دل سے کبھی خائن یا دشمن خدا نہیں سمجھا بلکہ یہ ان کے مزاج کی سختی تھی۔
دلائل کی روشنی میں حقیقت:
- حضرت عمرؓ کا دوبارہ گورنری پر اصرار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت ابو ہریرہؓ کو امانت دار سمجھتے تھے۔
- یہ واقعہ حضرت عمرؓ کی احتیاط اور سختی کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی خیانت کو۔
- مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرت عمرؓ کے احتیاطی رویے کے باوجود حضرت ابو ہریرہؓ اپنی روایت حدیث کی خدمت کو جاری رکھ سکے۔
دوسرا الزام: حضرت ابو ہریرہؓ کی منسوب جھوٹی روایت
روایت کا خلاصہ:
روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ وہ جنگ بدر کے وقت حضرت عثمانؓ کی زوجہ حضرت رقیہؓ سے ملے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت رقیہؓ جنگ بدر کے موقع پر وفات پا چکی تھیں، اور حضرت ابو ہریرہؓ سات ہجری میں مسلمان ہوئے۔
سند کی تحقیق:
- یہ روایت سنداً منقطع اور منکر ہے۔
- امام بخاری، امام بیہقی، امام طبرانی اور امام ذہبی نے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
- اس روایت کا راوی "مطلب” ہے، جس کی ملاقات حضرت ابو ہریرہؓ سے ثابت نہیں۔
قاری صاحب نے حضرت ابو ہریرہؓ کی صحیح احادیث کو رد کرنے کے لیے ایک ایسی روایت پیش کی جو خود ہی ضعیف اور منقطع ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اعتراض علمی بنیادوں سے زیادہ ذاتی خیالات پر مبنی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی شخصیت پر روشنی
حضرت عمرؓ کی احتیاط اور حضرت ابو ہریرہؓ کا اعتماد:
حضرت عمرؓ جیسے سخت گیر خلیفہ کے دور میں حضرت ابو ہریرہؓ مسلسل احادیث روایت کرتے رہے۔ اگر ان کی دیانت یا حافظے پر کسی کو شک ہوتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی وضاحت:
حضرت ابو ہریرہؓ کی استقامت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی روایات کے معاملے میں ذمہ دار تھے۔ اگر ان میں کوئی جھوٹ یا خیانت ہوتی تو حضرت عمرؓ جیسے سخت گیر نقاد ان کی احادیث کو مسترد کر دیتے۔
نتیجہ
- حضرت ابو ہریرہؓ پر کیے گئے الزامات تاریخی اور علمی تحقیق کی روشنی میں بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔
- حضرت عمرؓ کا ان کے ساتھ رویہ صرف احتیاط اور سختی کی علامت تھا، نہ کہ ان کے خلاف بدگمانی کی۔
- ضعیف اور منقطع روایات کو بنیاد بنا کر ان کی شخصیت کو متنازع بنانا انصاف کے خلاف ہے۔
- حضرت ابو ہریرہؓ ایک قابل اعتماد راوی ہیں جنہوں نے دین اسلام کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا۔