کیا مؤذن کو اذان کی اجرت دی جاسکتی ہے

کیا مؤذن کو اذان کی اجرت دی جاسکتی ہے

➊ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرما یا:
واتــخــذ مـؤذنـا لا يأخذ على أذانه اجرا
[صحيح : صحيح أبو داود 497 ، كتاب الصلاة : باب أخذ الأجرة على التأذين ، أبو داود 531 ، ترمذي 209 ، أحمد 21/4 ، نسائي 23/2 ، ابن ماجة 714 ، ابن خزيمة 1608]
”ایسے شخص کو مؤذن بناؤ جو اذان پر اجرت نہ لے۔“
➋ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مجھے اذان سکھائی تو میں نے اذان کہی :
تم اعطاني نم حين قضيت التأذين صرة فيها شيئ من الفضة
[حسن : صحيح نسائي 613 ، كتاب الاذان : باب كيف الاذان ، نسالى 633 ، أحمد 409/3 ، ابن حيان 1680]
” پھر جب میں نے اذان مکمل کی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں چاندی کی کوئی چیز تھی ۔ “
ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں دی گئی ہے۔
(شوکانیؒ) بلاشبہ اجرت حرام اس وقت ہے کہ جب مشروط ہو اور اگر بغیر مانگنے کے کچھ دیا جائے ( تو جائز ہے ) ۔
[نيل الأوطار 528/1]
( عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام شوکانیؒ کی مذکورہ تطبیق نہایت ہی عمدہ و بہتر ہے۔
[تحفة الأحوزي 645/1]
فقہائے اسلام نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔
( ابوحنیفہؒ) اذان اور اقامت پر شرط لگاتے ہوئے اجرت وصول کرنا حرام ہے۔
(مالکؒ) اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
(شافعیؒ) مجھے یہ بات پسند ہے کہ مؤذن اپنی خوشی سے اذان دینے والے ہوں ۔
[تحفة الأحوزى 645/1 ، نيل الأوطار 527/1 ، الأم للشافعي 64/2]
( خطابیؒ ) مؤذن کے لیے اذان پر اجرت لینا مکروہ ہے۔
[معالم السنن 156/1]
( ابن عربیؒ) زیادہ درست بات یہی ہے کہ اجرت لی جاسکتی ہے۔
[عارضة الأحوذي 12/2-13]
( عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) جمہور کا قول رائج ہے ( یعنی اجرت لینا مکروہ ہے ) ۔
[تحفة الأحوذى 645/1]
(ابن حزمؒ ) اذان پر اجرت لینا جائز نہیں اگر وہ شخص صرف اجرت کے لیے اذان دیتا ہے تو اس کی اذان جائز نہیں البتہ نیکی
کرتے ہوئے اگر حاکم وقت اسے کچھ عطا کرے تو جائز ہے۔
[المحلى 182/1]
(راجح) ایسا موذن مقرر کیا جائے جو اذان کہنے پر اجرت نہ لیتا ہو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ لیکن اگر ایسا کوئی میسر نہ ہو تو پھر اجرت پر بھی مؤذن رکھ لینا جائز ہے کیونکہ اوقات نماز سے آگاہی کے لیے مؤذن کی تقرری نہایت ضروری ہے اور اگر موذن کا سوائے اذان کے کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے تو اس کے لیے اجرت لینا اور اسے اجرت دینا محض جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے البتہ مؤذن کے لیے اجرت لینے میں کراہت کا پہلو بہر حال موجود ہے جیسا کہ امام خطابیؒ اور اکثر علماء کا یہی موقف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے