بچین میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت
سیدنا علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے میں نے کبھی ان کاموں کا ارادہ نہیں کیا جس کا ارادہ اھل جاهلییت کر تے تھے دو مرتبہ کے علا وہ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں مرتبہ ہی بچالیا۔ ایک دفعہ میں نے اپنے نوجوان قر یشی ساتھی سے کہا جو مکہ کے بالائی حصے میں میرے ساتھ اپنی بکریاں چراتا تھا تم میری بکریوں کا خیال رکھنا میں آج رات جاگ کر گزاروں گا۔ جس طرح مکہ کے نوجوان جاگتے رہتے ہیں۔ تو میرے ساتھی نے کہا نعم ٹھیک ہے (آپ جائیں میں آپ کی بکریوں کا خیال رکھوں گا ) اس کے بعد میں نکلا اور مکہ کے پہلے ہی گھر میں پہنچا تو وہاں سے گانے کی آواز آئی میں نے (ان لوگوں میں سے کسی سے پوچھا) یہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ فلاں قریشی نوجوان کی فلاں عورت سے شادی ہوئی ہے۔ جب میں اس گانے اور آواز کی طرف مائل ہوا تو نیند آ گئی مجھے صبح سورج کی کرنیں پڑنے پر جاگ آئی تو میں اپنے ساتھی کے پاس چلا گیا اس نے پوچھا بتایئے کیا دیکھا سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اسے سارا واقعہ سنایا۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے وہی بات اس سے کہی اور میں نکلا تو بھی ایک محفل میں گیا اسی قسم کی آواز میں سنیں مجھے وہی بتایا گیا جو پہلے بتایا گیا تھا۔
مجھے پھر اسی طرح نیند آ گئی جس طرح پہلے آئی تھی اسی طرح سورج کی تمازت سے میں بیدار ہوا پھر میں اپنے ساتھی کے پاس آیا اس نے مجھے پوچھا آپ نے کیا کیا، میں نے کہا کچھ نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! اس کے بعد دوبارہ میں نے کبھی ان کاموں کا ارادہ نہیں کیا یہاں تک کہ الله تعالی نے مجھے شرف نبوت سے نواز دیا۔
تحقیق الحدیث :
[صحيح ابن حبان: كتاب التاريخ باب 129حديث رقم 6272 ]
حافظ ابن کثیر نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیں [البدايه و النهاية]
اس میں محمد بن عبد اللہ بن قیس بن محزمہ کو حافظ ابن حجر نے مقبول کیا ہے۔
[تقريب التهذيب 6064 تهذيب التهذيب 272/9 ]
مقبول کی روایت متابعت کی محتاج ہوتی ہے۔
یہ روایت طبرانی میں عمار بن یاسرسے مروی ہے۔ مگر اس میں مجھول راوی ہیں۔ دیکھیں [فقه السيرة للغز الي 72ٓ،73 از تعليقات الباني۔ ]
ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن قیس بن محزمہ کو مجھول کہا ہے۔