اذان کا مقصد اوقات نماز سے باخبر کرنا ہے
کیونکہ اذان کا مقصد ہی اوقات نماز سے باخبر کرنا ہے۔ البتہ نماز فجر کے وقت سے پہلے اذان دی جاسکتی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ اذان نماز فجر کے لیے نہیں ہوگی بلکہ تہجد و نوافل کے لیے اور لوگوں کو بیدار و متنبہ کرنے کے لیے ہوگی۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کسی کو ہرگز بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اس کی سحری سے مت رو کے کیونکہ وہ رات کو اذان دیتا ہے تاکہ تمہارے تہجد گزار کو لوٹا دے اور تمہارے سونے والے کو جگا دے۔“
[بخاري 621 ، كتاب الاذان : باب الاذان قبل الفجر، مسلم 1093 ، ابن ماجة 1696 ، نسائي 148/4 ، أحمد 435/1 ، بيهقي 381/1 ، أبو عوانة 373/1 ، ابن خزيمة 1928]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: :
ان بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم
[بخاري 617 ، كتاب الاذان : باب اذان الأعمى إذا كان له من يخبره ، مسلم 1092 ، مؤطا 74/1 ، حميدي 611 ، دارمي 269/1 ، ترمذي 203 ، نسائي 10/2 ، أحمد 123/2 ، ابن خزيمة 401 ، شرح معاني الآثار 82/1]
” حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے اذان دینے تک کھاؤ اور پیو۔“
➌ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں :
لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال
[مسلم 1094 ، كتاب الصيام : باب بيان أن الدخول فى الصوم يحصل بطلوع الفجر ، أبو داود 2346 ، ترمذى 701 ، نسائي 148/4 ، أحمد 18/5 ، دارقطني 167/2 ، بيهقي 215/4]
”تمہاری سحریوں سے تمہیں بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔“
( جمہور) نماز فجر کا وقت آنے سے پہلے اذان کہنا جائز ہے۔
( ابوحنیفہؒ) یہ اذان جائز نہیں ہے ۔
[الأم للشافعي 170/1 ، شرح المهذب 98/3 ، بدائع الصنائع 154/1 ، المبسوط 134/1 ، الحجة على أهل المدينة 71/1 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف 420/1]
ناجائز کہنے والوں کی دلیل وہ حدیث ہے کہ جس میں مذکور ہے ”ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے طلوع فجر سے پہلے اذان دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ واپس جائیں اور اعلان کریں کہ :
ألا إن العبد نام ، ألا إن العبد نام
[صحيح : صحيح أبو داود 498 ، كتاب الصلاة : باب فى الأذان قبل دخول الوقت ، أبو داود 532 ، دارقطني 244/1 ، بيهقي 383/1]
”خبردار بندہ سو گیا تھا، خبردار بندہ سو گیا تھا۔“
(البانیؒ) نماز فجر سے پہلے اذان تہجد دینا ایسی سنت ہے کہ جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یقیناً ایسے شخص کے لیے مبارک ہے جو اسے توفیق الٰہی زندہ کرے۔
[ تمام المنة ص/ 148]
(راجح) جب کسی فرض نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو صرف اس کے وقت میں ہی دی جائے گی البتہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا فجر سے پہلے اذان دینا نماز کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کی علت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہے کہ : اليسر جمع قائمكم ليوقظ نائمكم اور جس حدیث میں ہے : الا ان العبد نام اگر وہ صیح ثابت ہو جائے تو اس کی تاویل اس طرح کی جائے گی کہ یہ واقعہ پہلی اذان مشروع ہونے سے پہلے کا ہے کیونکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی پہلے موذن تھے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے انہیں کلمات بتلائے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو بھی مؤذن مقرر کر لیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، پہلی اذان دیتے پھر طلوع فجر کے وقت حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیتے ۔
[السيل الجرار 434/1 ، سبل السلام 260/1]
یادر ہے کہ فجر کے وقت سے پہلے دی ہوئی اذان نماز فجر کے لیے کافی نہیں ہوتی بلکہ بعد میں دوسری اذان دینی پڑے گی جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے۔ البتہ امام مالکؒ، امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک پہلی اذان ہی نماز فجر کے لیے کفایت کر جاتی ہے جبکہ امام ابن خزیمہؒ، امام ابن منذرؒ، امام غزائیؒ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس کے ناکافی ہونے کی قائل ہے کیونکہ اس کے کافی ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور یہی بات راجح ہے۔
[تحفة الأحوذى 631/1 ، فتح البارى 312/2 ، نيل الأوطار 515/1]
اور سننے والے کے لیے اذان کے الفاظ دہرانا مشروع ہے :
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا سمعـتــم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
[بخاري 611 ، كتاب الاذان : باب ما يقول إذا سمع المنادي ، مسلم 383 ، مؤطا 67/1 ، أحمد 6/3 ، دارمي 27231 ، ابو داود 522 ، ترمذي 208 ، نسائي 23/2 ، ابن ماجة 720 ، عبدالرزاق 1842 ، ابن خزيمة 411]
” جب تم ازان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے ۔“
➋ اذان کے جواب میں وہی الفاظ دہرانے چاہییں جو مؤذن کہتا ہے لیکن ” حـي عـلـى الـصـلاة “ اور ” حيـى عـلـى الفلاح “ کے جواب میں لاحول ولا قوه الا بالله کہا جائے گا جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور کہا : سمعت رسول الله يقول مثل ذالك ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔“ [أحمد 91/4 ، بخارى 613 ، أيضا ، نسائى 677]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اذان کا جواب دے حتی کہ ” الله اكبر “ سے ” لا اله الا الله “ تک دل سے کہے تو دخل الحنة ” وہ جنت میں داخل ہوگا۔ “ ( واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی حیعلتین کے جواب میں لاحول ولاقوة الا بالله کہنے کا ذکر ہے۔ )
[مسلم 385 ، كتاب الصلاة : باب استحباب القول مثل قول المؤذن …..، أبو داود 527 ، أبو عوانة 339/1 ، شرح معاني الآثار 86/1 ، بيهقي 409/1]