نمازِ فجر کا وقت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
فجر کے وقت کی ابتداء سپیده صبح ظاہر ہونے سے ہوتی ہے۔ اور اس کا آخری وقت طلوع شمس تک ہے۔
➊ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
فاقام الفجر حين انشق الفجر والناس لا يكاد يعرف بعضه بعضا
[مسلم 614 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب أوقات الصلوات الخمس، نسائي 523 ، أبو داود 395]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابہ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے ۔“
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فجر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام ہے اور نماز ادا کرنا جائز و مباح ہے اور ایک وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام ہے لیکن کھانا مباح ہے ۔“
مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ”جس صبح میں کھانا حرام ہے وہ آسمان کےکناروں اور اطراف میں پھیل جاتی ہے اور دوسری بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے (یعنی ستون کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ) ۔“
[صحيح : الصحيحة 693 ، حاكم 191/1 ، ابن خزيمة 356 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے بهي اسے صحيح كها هے۔]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اندھیرے میں ادا فر ماتے تھے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مومن عورتیں نماز فجر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوتی تھیں پھر نماز کے اختتام پر جب وہ اپنی چادر میں لپیٹے ہوئے واپس جاتیں تو :
لا يعرفهن أحد من الغلس
[مؤطا 5/1 ، كتاب وقوت الصلاة : باب وقوت الصلاة ، بخاري 578 ، مسلم 645 ، أبو داود 423 ، نسائي 545 ، ترمذي 153 ، ابن ماجة 669 ، حميدى 174 ، أحمد 258/6 ، أبو عوانة 370/1 ، بيهقي 192/2]
”اند ھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔“
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ :
والصبح كان النبى يصليها بغلس
[بخاري: 565 ، كتاب مواقيت الصلاة : باب وقت العشاء إذا اجتمع الناس أو تأخرو، مسلم 246 ، أبو داود 397 ، نسالي 264/1 ، أحمد 369/3]
”اور صبح کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں ہی پڑھ لیتے تھے ۔“
مندرجہ ذیل حدیث گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اصبـحــوا بــالـصبـح فــانــه أعظم لأجوركم
[صحيح : صحيح أبو داود 409 ، كتاب الصلاة : باب فى وقت الصبح ، أبو داود 424 ، ترمذي 154 ، نسائي 272/1 ، ابن ماجة 672 ، أحمد 465/3 ، دارمي 277/1]
”نماز فجر صبح کے خوب واضح ہو جانے پر پڑھا کرو، یہ تمہارے اجر میں اضافے کا موجب ہوگی ۔“
ان احادیث میں دو طرح سے تطبیق دی گئی ہے:
(ابن قیمؒ ، طحاویؒ) نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے اور قراءت اتنی لمبی کی جائے کہ صبح خوب روشن ہو جائے۔
(شافعیؒ، احمدؒ ) ” اسفرو “ یا ” اصبحوا “ کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔
[أعلام الموقعين 290/2 ، الروضة الندية 203/1 ، نيل الأوطار 477/1 ، تحفة الأحوذي 505/1 ، ترمذى : كتاب الطهارة : باب ما جاء فى الإسفار بالفجر]
واضح رہے کہ صبح کو روشن کر کے نماز فجر ادا کرنا بھی اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن آخر میں جس عمل پر تادم حیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت اختیار فرمائی ہے وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے جیسا کہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی اور پھر دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کر کے پڑھا :
ونم كانـت صـلاتـه بـعـد ذلك التغليس حتى مات ولم يعد إلى أن يسفر
[حسن : صحيح أبو داود 378 ، كتاب الصلاة : باب فى المواقيت ، أبو داود 394 ، ابن خزيمة 352 ، موطا 29 ، أحمد 120/4 ، دارمي 1189 ، بخاري 521 ، مسلم 610]
”پھر وفات تک آپ صلى الله عليه وسلم کی نماز ( فجر ) اندھیرے میں ہی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کبھی اسے روشن کر کے نہ پڑھا۔“
بہر حال اس مسئلے میں بھی علماء کا اختلاف موجود ہے۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) نماز فجر اندھیرے میں ادا کرنا افضل و مستحب ہے۔ امام اسحاق، امام ابو ثور، امام اوزاعی، امام داود رحمهم الله اجمعین اور اسی طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن زبیر، حضرت انس، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی موقف منقول ہے۔
( ابوحنیفہؒ، محمدؒ ، ابو یوسفؒ ) نماز فجر خوب روشن کر کے پڑھنا افضل ہے۔ (ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں اصبحوا بالصبح کے الفاظ ہیں) ۔
[تحفة الأحوذى 498/1 ، نيل الأوطار 477/1 ، اللباب 60/1 ، القوانين الفقهية ص 45 ، الشرح الصغير 222]
(راجح) اندھیرے میں نماز فجر ادا کرنا ہی افضل ہے کیونکہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور خلفائے اربعہ اور جمہور صحابہ و تابعین کا بھی یہی موقف ہے۔ یہاں یہ بھی یادر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف افضل عمل پر ہی مداومت اختیار فرماتے تھے۔
[الإعتبار للحازمي ص/268-275]
(ابن قدامہؒ) نماز فجر اندھیرے میں ادا کرنا افضل ہے۔
[المغنى 44/1]
( ابن حجرؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[كما فى تحفة الأحوذى 503/1]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[أيضا 505/1]
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وقت صلاة الفجر مالم تطلع الشمس
[مسلم 612 ، أحمد 210/2 ، أبو داود 396 ، شرح معاني الآثار 150/1 ، أبو عوانة 371/1]
”نماز فجر کا وقت طلوع آفتاب تک ہے ۔“