نبوت اور انسانی فطرت پر اعتراضات کے جوابات
تحریر: طلحہ سیف

معترضین کا اعتراض

بعض لوگ ایسی روایات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اور خانگی معاملات کا ذکر آتا ہے۔ ان کے مطابق، ایسی روایات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کی عفت و عظمت کے خلاف ہیں۔ وہ ان روایات کو ناقابل قبول قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، جیسے:

  • ایک برتن سے غسل کرنا
  • حالت حیض میں بوس و کنار
  • روزے کی حالت میں ازدواجی معاملات
  • ازواج کے درمیان خانگی اختلافات

یہ اعتراض دراصل ان لوگوں کے ناقص فہم اور مقامِ نبوت کی حقیقت سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔

نبوت اور انسانیت کا ربط

1۔ نبی کی تعلیم اور عملی نمونہ

نبوت کے لئے ضروری ہے کہ نبی:

  • انسانوں کی طرح فطری تقاضوں کے حامل ہوں۔
  • ان کی معاشرتی اور گھریلو ضروریات وہی ہوں جو عام انسانوں کی ہوتی ہیں۔
  • اللہ کے حکم کے مطابق ان معاملات کو بہترین طریقے سے انجام دے کر عملی نمونہ پیش کریں۔

اگر نبی کسی معاملے سے گزریں ہی نہ، تو وہ اس معاملے میں امت کے لیے معلم اور اسوہ کیسے بن سکتے ہیں؟ مثلاً:

  • ازدواجی تعلقات
  • ضبطِ نفس
  • خانگی اختلافات میں انصاف

2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فطری اوصاف

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام فطری صفات میں اعلیٰ ترین مقام پر تھے:

  • جسمانی قوت میں ممتاز
  • حسن و جمال میں بے مثال
  • رحم و غضب دونوں میں توازن

اسلام فطری دین ہے، جو فطری تقاضوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بہترین استعمال کا حکم دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام فطری اوصاف کو عملی طور پر اعلیٰ معیار پر پیش کیا۔

روایات کی اہمیت

ازدواجی زندگی کے عملی نمونے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی سے متعلق روایات ضبطِ نفس، عدل اور خانگی تعلقات میں توازن کے اسباق فراہم کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر:

  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں کئی ازواج سے ملاقات فرماتے تھے۔
  • ایک موقع پر آپ نے پورے مہینے کے لئے ازواج سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔
  • روزے کی حالت میں یا حیض کے دنوں میں تعلقات کی حدود اور آداب سکھائے۔

یہ روایات امت کو ان مسائل میں راہنمائی فراہم کرتی ہیں جن سے ہر شادی شدہ انسان گزرتا ہے۔

ازواج مطہرات کے کردار

امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن نے اپنی زندگی کے تمام پہلو بے کم و کاست بیان کیے تاکہ امت کو ان معاملات میں رہنمائی ملے۔
یہ ان کی دیانتداری اور امت پر احسان ہے کہ انہوں نے جھگڑوں، اختلافات اور فطری تقاضوں کو چھپانے کے بجائے صاف صاف بیان کیا۔

اعتراضات کی اصل وجہ

1۔ تصورِ نبوت میں غلطی

بعض لوگ نبی کی شخصیت کو "مافوق البشر” یا دنیاوی معاملات سے بالکل الگ تصور کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی سن کر حیران ہوگئے اور اسے کم سمجھا۔ ان کے خیال میں نبی کو تارک الدنیا یا مجرد ہونا چاہئے تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی اور فرمایا:
"أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني”
"خدا کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس سے تقویٰ رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ تو جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں۔”
(صحیح بخاری: جلد سوم، حدیث نمبر 57)

2۔ عرب کے عرف اور مزاج سے لاعلمی

عرب معاشرت میں کچھ چیزیں عام اور معمول تھیں جو دیگر معاشروں میں غیر معمولی سمجھی جاتی ہیں۔
مثلاً:

  • نکاح کے وقت بیٹی یا بہن کے اوصاف کا ذکر۔
  • باندیوں کی خرید و فروخت میں صفات کا بیان۔

اگر کوئی شخص ان عرفیات سے لاعلم ہو، تو وہ ان باتوں کو نامناسب یا اعتراض کے قابل سمجھ سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر یہ دکھایا کہ ایک انسان اپنے گھر میں:

  • خانگی جھگڑوں کو کیسے برداشت کرے۔
  • سوکنوں کے معاملات میں عدل اور حکمت سے کیسے نمٹے۔
  • فطری تقاضوں میں اعتدال اور حدود کا خیال کیسے رکھے۔

یہ تمام پہلو امت کے لئے رہنمائی اور سبق ہیں۔ اعتراضات کرنے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو مثبت پہلو دیکھنے کے بجائے صرف اعتراض تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ مکھی اور شہد کی مکھی کا فرق۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے