انکار سنت کی تاریخ اسباب اور موجودہ چیلنجز

انکارِ سنت کی پہلی نمود

اسلامی تاریخ میں انکارِ سنت کا فتنہ پہلی بار دوسری صدی ہجری میں ظاہر ہوا۔ اس کا آغاز خوارج اور معتزلہ کے گروہوں نے کیا:

➊ خوارج:

خوارج نے اس فتنہ کو اپنی انتہا پسندانہ نظریات کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ وہ معاشرے میں انارکی پیدا کرنا چاہتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھی۔ اس لیے انہوں نے احادیث کی صحت پر سوالات اٹھائے اور سنت کی پابندی کو رد کیا۔

➋ معتزلہ:

معتزلہ نے یونانی اور عجمی فلسفے سے متاثر ہو کر انکارِ سنت کی راہ اپنائی۔ وہ اسلامی عقائد کو فلسفیانہ بنیادوں پر پرکھنا چاہتے تھے اور سنت کو ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے احادیث کو مشکوک اور سنت کو غیر ضروری قرار دینے کی کوشش کی۔

انکارِ سنت کے مقاصد

  • قرآن کو اس کے لانے والے رسول ﷺ کی تشریح اور عملی نمونہ سے جدا کرنا، تاکہ اپنی من مانی تاویلات کے ذریعے ایک نیا نظام وضع کیا جا سکے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے دو ہتھکنڈے اپنائے:

  • احادیث کی صحت پر شک ڈالنا۔
  • یہ اصولی سوال اٹھانا کہ رسول ﷺ کے اقوال و اعمال کی پیروی واجب کیوں ہو۔

انکارِ سنت کا خاتمہ

یہ فتنے زیادہ دیر نہ چل سکے اور تیسری صدی ہجری کے بعد ختم ہو گئے۔ اس کے خاتمے میں درج ذیل عوامل نے اہم کردار ادا کیا:

➊ محدثین کی تحقیق:

محدثین نے احادیث کی چھان بین کے لیے زبردست تحقیقی کام کیا۔ ان کے کام نے ثابت کیا کہ احادیث معتبر ذرائع سے امت کو پہنچی ہیں اور مشتبہ روایات الگ کر دی گئی ہیں۔

➋ قرآنی دلائل:

علماء نے قرآن کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ محض قرآن کے پیامبر نہیں تھے، بلکہ معلم، شارع، قاضی اور رہنما بھی تھے۔ قرآن کے مطابق آپ ﷺ کی اطاعت دین کا لازمی جزو ہے۔

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا”
اور جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے تمہیں منع کریں، اس سے رک جاؤ۔
(سورہ الحشر: 7)

➌ امت کا اجتماعی شعور:

امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر کبھی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہ ہوا کہ کوئی مسلمان رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ عام مسلمان کے لیے یہ تصور ناقابلِ فہم تھا کہ وہ رسول ﷺ پر ایمان لائے اور ساتھ ہی ان کی اطاعت سے انکار کرے۔

تیرھویں صدی میں انکارِ سنت کا احیاء

انکارِ سنت کا یہ فتنہ کئی صدیوں تک ختم رہا، لیکن تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں ہندوستان میں دوبارہ ابھرا۔ اس دور کے نمایاں افراد جو اس فتنے کے داعی بنے، ان میں درج ذیل شامل ہیں:

  • سر سید احمد خان اور مولوی چراغ علی
  • مولوی عبداللہ چکڑالوی
  • مولوی احمد الدین امرتسری اور مولانا اسلم جیراج پوری
  • چودھری غلام احمد پرویز

➊ تیرھویں صدی میں انکارِ سنت کے اسباب:

  • ذہنی مرعوبیت: مغربی فلسفوں، سائنس اور تہذیب کے اثرات کے تحت اسلام کو ان نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش۔
  • مسلمانوں کی کمزوری: مسلمانوں کی سیاسی، عسکری، اور تعلیمی میدان میں مغلوبیت، جس کی وجہ سے ان کے اندر مرعوب ذہنیت پیدا ہوئی۔

جدید انکارِ سنت کے حربے

  • مستشرقین کے خیالات کا استعمال: مغربی مستشرقین کی احادیث پر تنقید کو بنیاد بنا کر مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا۔
  • احادیث کی کتابوں پر تنقید: حدیث کے مجموعوں سے اعتراضات ڈھونڈ کر ان کا تمسخر اڑانا۔
  • رسالت کا انکار: رسول اللہ ﷺ کے منصب کو محض قرآن پہنچانے تک محدود قرار دینا۔
  • قرآن کو واحد ماخذ قرار دینا: سنت کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کرنا۔
  • قرآنی اصطلاحات کی تحریف: قرآن کی لغت کو اپنی مرضی سے بدل کر نئی تاویلات پیش کرنا۔

جدید انکارِ سنت کے اثرات

جدید انکارِ سنت کے داعی اسلام کو مغربی نظریات کے مطابق ڈھالنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے اسلام کا ایک نیا "ماڈرن” ورژن پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں:

  • "نظامِ ربوبیت”: تمام املاک کو ختم کر کے ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دیا جائے۔
  • سیاسی جماعتوں کا خاتمہ: کسی کو حکومت کے خلاف منظم ہونے کی اجازت نہ ہو۔
  • "مرکزِ ملت”: اللہ اور رسول ﷺ کی جگہ "مرکزِ ملت” کو حاکمِ اعلیٰ قرار دیا جائے۔

نتیجہ

انکارِ سنت کا فتنہ چاہے قدیم ہو یا جدید، اس کا بنیادی مقصد اسلام کے نظامِ حیات کو مسخ کرنا ہے۔ تاہم، امت مسلمہ کا اجتماعی شعور، محدثین کا تحقیقی کام، اور قرآن و سنت کی واضح تعلیمات ہمیشہ اس فتنے کو ناکام بناتی رہی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے