ماڈرنسٹوں کا فہم اسلام بمقابلہ اسلاف کی تعبیر

ماڈرنسٹ حضرات کا سوال

ماڈرنسٹ حضرات اکثر ایک سوال اٹھاتے ہیں: "کیا قرآن و حدیث کو ترجیح دی جائے یا اسلاف کے فہم اسلام کو؟” یہ سوال اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے قرآن و حدیث اور تاریخی فہم اسلام میں کوئی تضاد ہو۔ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ نیوٹرل مقام سے قرآن و سنت کو سمجھ رہے ہیں، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اسی منطق کے تحت ہم ان سے یہ سوال بھی کرسکتے ہیں: "کیا تمہارا جدید فہم اسلام مقدم ہے یا قرآن و حدیث؟”

ماڈرنسٹوں کی چالاکی

ماڈرنسٹ اپنے فہم اسلام (جو جدیدیت کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے) کو براہ راست قرآن و سنت کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے دلیل پیش کر رہے ہیں، جبکہ روایت پسند بھی یہی کرتے ہیں۔ سوال درحقیقت یہ نہیں کہ کس کا ماخذ قرآن و سنت ہے، بلکہ یہ ہے کہ ان ماخذات کو سمجھنے کا طریقہ کیا ہے؟

دو بنیادی پیراڈائمز

اسلامی تاریخ میں وضع شدہ فہم اسلام:

یہ فہم اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین کی درست تشریح وہی ہے جو اسلامی تاریخ میں مستند طور پر سامنے آئی۔

جدیدیت کے تحت وضع شدہ فہم اسلام:

یہ ماڈرنسٹوں کا موقف ہے کہ دین کو جدید حالات کے تناظر میں دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اپنی پوزیشن کو یہ قرآن و سنت کے ہم معنی قرار دیتے ہیں۔

مسئلے کی نوعیت

یہ سوال کہ "کیا اسلاف کا فہم مقدم ہے یا قرآن و حدیث؟” درحقیقت ماڈرنسٹوں کی کوشش ہوتی ہے کہ تاریخی فہم اسلام کو رد کرکے اپنے جدید فہم کو قبول کروایا جائے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ "کیا اسلامی تاریخ کے فہم اسلام کو قبول کیا جائے یا جدیدیت کے فہم کو؟”

اسلاف کی پیروی پر اعتراضات

متجددین اکثر اسلاف کی پیروی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے "اندھی تقلید” قرار دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ یہ رویہ قرآن کی روح کے خلاف ہے۔ حالانکہ قرآن کی روشنی میں، اگر اسلاف حق پر ہوں تو ان کی پیروی مستحسن ہے۔ مثال کے طور پر:

  • سورہ فاتحہ میں اللہ نے منعمین کے راستے پر چلنے کی دعا سکھائی۔
  • سورہ بقرہ (آیت 133) میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کا جواب کہ "ہم آپ کے اور آپ کے آباء کے خدا کی عبادت کریں گے۔”

تاریخی فہم اسلام بمقابلہ جدید فہم اسلام

ماڈرنسٹ یہ کہتے ہیں کہ پچھلے لوگ ہماری طرح انسان تھے، انہوں نے اپنے حالات کے مطابق دین کو سمجھا۔ لہذا ہمیں بھی اپنی ضروریات کے مطابق دین کا فہم پیدا کرنا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا کہ خلفائے راشدین، ائمہ اربعہ، اور دیگر معتبر شخصیات کی رائے کو وحی کے برابر حیثیت دینا غلط ہے، دراصل تاریخی اسلام کو رد کرنے کی ایک چال ہے۔

جدید حالات اور دین کا فہم

ماڈرنسٹوں کے مطابق موجودہ حالات بدل چکے ہیں، اس لیے دین کو بھی بدلنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات کیسے بدلے؟ کیا یہ تبدیلی قرآن و سنت کی روشنی میں ہوئی یا ان کو نظرانداز کرکے؟

دین کو جدید بنانے کا آسان راستہ

ماڈرنسٹ دین کو جدید بنانے کے لیے محنت سے بچتے ہیں اور آسان حل تلاش کرتے ہیں۔ لیکن ایسا رویہ علمی کاہلی کے سوا کچھ نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے