جنات کے وجود کی حقیقت
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

سوال :

کیا جنات کا وجود ہے ؟

جواب :

قرآن و حدیث اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ جنات کا وجود ہے۔ تیس کے قریب آیات قرآنی اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں، جیسا کہ :
✿ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [6-الأنعام:112]
”اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جنوں اور انسانوں کو دشمن بنایا۔“
✿ نیز فرمایا :
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ [15-الحجر:27 ]
”اور جنوں کو ہم نے اس سے پہلے لو والی آگ سے پیدا کیا۔“
لیکن جہمیہ، معتزلہ، فلاسفہ، جمہور قدری اور دیگر ملحد و زندیق لوگ جنات کے وجود کو نہیں مانتے۔

◈ شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661۔ 728 ھ) فرماتے ہیں :
لم يخالف أحد من طوائف المسلمين فى وجود الجن، ولا فى أن الله أرسل محمدا صلى الله عليه وسلم إليهم، وجمهور طوائف الكفار على إثبات الجن، أما أهل الكتاب، من اليهود والنصاري؛ فهم مقرون بهم كإقرار المسلمين، وإن وجد فيهم من ينكر ذلك، وكما يوجد فى المسلمين من ينكر ذلك، كما يوجد فى طوائف المسلمين الغالطون، والمعتزلة من ينكر ذلك، وإن كان جمهور الطائفة وأئمتها مقرين بذلك، وهذا لأن وجود الجن تواترت به أخبار الأنبياء تواترا معلوما بالاضطرار، ومعلوم بالاضطرار أنهم أحيا، عقلاء، فاعلون بالإرادة، بل مأمورون منهيون، ليسوا صفات وأعراضا قائمة بالإنسان أو غيره، كما يزعمه بعض الملاحدة، فلما كان أمر الجن متواترا عن الأنبياء تواترا ظاهرا، تعرفه العامة والخاضة، لم يمكن لطائفة كبيرة من الطوائف المومنين بالرسل ان تنكرهم.
”مسلمانوں کے کسی بھی گروہ نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ جنوں کا وجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف بھی مبعوث فرمایا ہے۔ کافروں کے بھی اکثر گروہ جنوں کے وجود کے اقراری ہیں۔ رہے اہل کتاب، تو وہ بھی مسلمانوں کی طرح اس حقیقت کے اقراری ہیں۔ اگرچہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں، جو جنوں کے وجود کے منکر ہیں، جیسے مسلمانوں میں بھی ایسے گمراہ لوگ موجود ہیں۔ معتزلہ میں سے بعض لوگ جنوں کے وجود کو نہیں مانتے، اگرچہ ان کی اکثریت اور ان کے ائمہ جنوں کے اقراری ہیں۔ جنوں کے وجود کے بارے میں انبیاء کرام کی ایسی متواتر احادیث موجود ہیں، جن سے لازمی طور پر یہ بات معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ جن زندہ ہیں، عقل و شعور رکھتے ہیں اور ان میں اپنے ارادے کو سرانجام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہے، بلکہ انہیں اللہ کی طرف سے (نیکیوں کا) حکم بھی دیا گیا ہے اور (برائیوں سے) منع بھی کیا گیا ہے . جن کوئی صفات و اعراض نہیں، جو خود مستقل وجود نہ رکھتے ہوں، بلکہ انسان وغیرہ کے ساتھ قائم ہوں، جیسا کہ بعض ملحدین نے کہا ہے۔ جب جنوں کا معاملہ انبیاء کرام سے متواتر طور پر ثابت ہے، جسے خاص و عام سب جانتے ہیں، تو رسولوں پر ایمان لانے والے لوگوں کے کسی بڑے گروہ کے لیے جنوں کے وجود کا انکار ممکن نہیں ہو سکا۔“ [مجموع الفتاوٰي : 10/19 ]

◈ نیز فرماتے ہیں :
إن جميع طوائف المسلمين يقرون بوجود الجن، وكذلك جمهور الكفار، كعامة أهل الكتاب، وكذلك عامة مشركي العرب، وغيرهم من أولاد الهذيل والهند، وغيرهم من أولاد حام، وكذلك جمهور الكنعانيين واليونانيين، وغيرهم من أولاد يافث.
”مسلمانوں کے تمام فرقے جنوں کے وجود کو مانتے ہیں، اسی طرح جمہور کفار، مثلاً: عام اہل کتاب، اکثر مشرکین عرب، ہذیل و ہندکی اولاد، حام کی اولاد، اکثر کنعانی و یونانی اور اولاد یافث، سب جنوں کے وجود کے اقراری ہیں۔“ [مجموع الفتاوٰي : 13/19 ]

◈ علامہ ابن حجر ہیتمی (909۔ 974ھ) لکھتے ہیں :
وأما الجان، فأهل السنة يؤمنون بوجودهم، وإنكار المعتزلة لوجودهم؛ فيه مخالفة للكتاب والسنة والإجماع، بل ألزموا به كفرا، لأن فيه تكذيب النصوص القطعية بوجودهم، ومن ثم قال بعض المالكية : الصواب كفر من أنكر وجودهم، لأنه جحد نص القرآن، والسنن المتواترة، والإجماع الضروري.
”اہل سنت جنوں کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں۔ معتزلہ نے ان کے وجود کا انکار کر کے کتاب و سنت اور اجماع کی مخالفت کی ہے، بلکہ اس کے ذریعے انہوں نے کفر لازم کر لیا ہے . اسی لیے تو بعض مالکیوں نے کہا ہے کہ جنوں کے وجود کے انکاری کا کافر ہونا ہی راجح ہے، کیونکہ ایسا شخص قرآن کریم، احادیث نبویہ اور حتمی اجماع امت کی نصوص کا انکار کرتا ہے۔“ [الفتاوي الحديثيه، ص : 89 ]
↰ معلوم ہوا کہ جو شخص جنات کے وجود کا منکر ہے، وہ قرآن و سنت اور اجماع کی تکذیب کی بنا پر پکا کافر ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے