قرون اولی کی طرف مراجعت اور جدید انسان کی الجھن
تحریر: زاہد مغل

وحشت کا پس منظر

آج اگر کسی سے کہا جائے کہ ہمیں قرون اولی کی طرف واپس جانا چاہیے کیونکہ وہی ہمارا آئیڈیل ہے، تو اکثر لوگ اس تصور کو غیر فطری اور غیر عقلی قرار دے کر وحشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا انسان تبدیلی کو ایک غیر اقداری(value-free)اور مجرد(abstract)حقیقت سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر تبدیلی ہی ایک حقیقت ہے، تو جدید زندگی سے قرون اولی کی طرف تبدیلی کیوں نہ کی جائے؟

جدید انسان کا "تبدیلی” کا نظریہ

جدید انسان اس تبدیلی کو "ترقی” کے بجائے "تنزلی” کیوں سمجھتا ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج کے دور کا غالب تصورِ تبدیلی آزادی اور ترقی (سرمائے میں اضافے) کے مقصد کے تحت ہے۔ تبدیلی برائے تبدیلی جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی ہمیشہ کسی آئیڈیل کی طرف کی جاتی ہے۔ جدید تنویری نظریہ یہ کہتا ہے کہ تبدیلی آزادی کے حصول اور سرمایہ بڑھانے کے لیے ہونی چاہیے۔

جدید ڈسکورس کا جبر

آج کی دنیا میں آزادی اور ترقی کے اس تصور کو نہ صرف قبول کیا گیا ہے بلکہ اسے ایک مربوط نظام کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے جو انسانوں کو اسی تصور کے تحت چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولی کی طرف مراجعت کا تصور عجیب اور غیر فطری محسوس ہوتا ہے، حالانکہ اس کا موجودہ ڈسکورس یا عقل کے خلاف ہونا کوئی ثابت شدہ بات نہیں۔

قرون اولی کی طرف مراجعت کی اہمیت

آئیڈیل کی طرف سفر

آئیڈیل کو حاصل کرنا مکمل طور پر ممکن نہ بھی ہو، تو بھی اصل بات یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ انفرادی طور پر ہر مسلمان کے لیے آئیڈیل رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کا طرز عمل ہے، حالانکہ کوئی بھی شخص رسول یا صحابی نہیں بن سکتا۔ اسی طرح، جتنا ہم قرون اولی کی طرف لوٹ سکیں، اتنا ہی بلند و ارفع مقام حاصل کریں گے۔

اسلامی تصورِ تبدیلی

اسلامی آئیڈیل یہ ہے کہ معاشرہ، ریاست، اور انفرادیت ویسی ہو جیسی سرکار دو عالم ﷺ کے زمانے میں تھی۔ یہ دور خیرالقرون کہلاتا ہے، اور ہماری جدوجہد کا مقصد اس دور کے نمونے کو دوبارہ قائم کرنا ہے، نہ کہ موجودہ جاہلی دور کی پیروی کرنا۔

جدید سائنس، ٹیکنالوجی، اور اعتراضات

"گھوڑے اور گدھے” کا اعتراض

جب قرون اولی کی طرف واپسی یا جدید سائنس اور ٹیکنالوجی پر اعتراض کیا جاتا ہے تو فوراً یہ کہا جاتا ہے، "کیا آپ ہمیں گھوڑے اور گدھے پر بٹھانا چاہتے ہیں؟” لیکن کیا گاڑی میں سفر کرنا کسی اخلاقی برتری کی علامت ہے؟ صرف جلدی پہنچنا کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے۔

سائنس کی مرکزیت

سائنس اور اس کے مظاہر کو شریعت کے تحت زندگی کا لازمی حصہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔ ایسے لوگ اعتراض سننے کو وسعت نظری کہتے ہیں، لیکن جیسے ہی سائنس پر اعتراض ہوتا ہے، وہ سخت برہم ہو جاتے ہیں۔

شرعی اصول

شرع کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آپ کس سواری پر سفر کرتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا وہ ذریعہ مقاصدِ شریعت میں معاون ہے یا مزاحم۔ اگر کوئی مادی فائدہ ایسا نظام زندگی لاتا ہے جو انسانیت کو گمراہی کی طرف لے جائے، تو اسے ترک کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ

قرون اولی کی طرف مراجعت کو غیر فطری سمجھنا موجودہ علمی و تہذیبی ڈسکورس کے جبر کا نتیجہ ہے۔ جب لوگ اس جبر سے آزاد ہوں گے اور جدید اقدار کو رد کریں گے، تو یہی تصور فطری اور عقلی لگنے لگے گا۔ دنیا کو اسلامی آئیڈیل کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے