عقیقہ صرف ساتویں دن
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

بچے یا بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا بالاتفاق مستحب عمل ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتویں دن مشروع قرار دیا ہے جیسا کہ : 

(1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
”يعق عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة“ قالت : عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين شاتين، ذبحھما يوم السابع .
’’لڑکے کی طرف سے دو برابر کی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو دو بکریاں ساتویں دن بطور عقیقہ ذبح کیں۔‘‘ (العيال لابن ابي الدنيا: 43، والسياق له، مسند البزار: 1239، مسند ابي يعلي:4521، السنن الكبري للبيھقي :303/9، 304، وسنده صحيح) 

(2) سیدہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
كل غلام مرتھن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويسمي . 
’’ہر بچہ اپنے عقیقےکے عوض گروی رکھا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘ (مسند الامام احمد: 7/5،8، 12، 17، 18، 22، سنن ابي داود :2838، سنن الترمذي:1522، سنن النسائي :4225، سنن ابن ماجه:3165، وسنده صحيح) 

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح ‘‘ اور امام ابن جارود رحمہ اللہ (910) اور امام حاکم رحمہ اللہ (مستدرک :237/4) نے ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ 

ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی میں عقیقہ صرف ساتویں دن کرنا چاہیے، مثلاً بچہ جمعہ کے دن پیدا ہو تو اس کا عقیقہ جمعرات کے دن کرنا چاہیے۔ بعض اہل علم کی رائے یہ ہےکہ پیدائش کے دن کو شمار نہیں کیا جائے گا لیکن یہ بات درست نہیں۔

ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کرنا درست نہیں۔ بعض علمائے کرام ساتویں دن سے پہلےعقیقے کی اجازت دیتے ہیں۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
والظاھر أن التقييد بذلك استحباب، وإلا فلو ذبح عنه في الرابع أو الثامن أو العاشر أو ما بعده أجزأت . 
’’معلوم یہ ہوتا ہےکہ ساتویں دن کی قید استحباب کے طور پر ہے، ورنہ اگر کوئی شخص بچے کی طرف سے چوتھے، آٹھویں، دسویں یا بعد والے کسی دن عقیقہ کر دے تو وہ کفایت کر جائے گا۔‘‘ (تحفة الودود لابن القيم: ص50) 

لیکن یہ بات حدیث کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حدیث میں ساتویں دن عقیقے کا ذکر ہے اور شریعت نے اس کا ایک وقت معین کیا ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہےکہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ولا تجزيء قبل يوم السابع أصلا . ’’ساتویں دن سے پہلے عقیقہ قطعاً کفایت نہیں کرے گا۔‘‘ (المحلي لابن حزم: 240/6) 

یہی بات علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے۔ (سبل السلام: 181/4) 
اسی طرح بعض اہل علم ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکنے کی صورت میں چودھویں یا اکیسویں دن عقیقے کی مشروعیت کے قائل ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کرنا درست نہیں کیونکہ اس پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔ جو روایات اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں، وہ اصولِ محدثین کے مطابق پایۂ صحت کو نہیں پہنچتیں۔ ان روایات پر تبصرہ پیش خدمت ہے: 

(1) سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
العقيقة تذبح لسبع، او اربع عشرة، او احدي وعشرين . 
’’عقیقےکا جانور ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبراني:4979، المعجم الكبير للطبراني:723، السنن الكبري للبيھقي: 303/9)

(تبصرہ :)
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس میں اسماعیل بن مسلم المکی راوی ”ضعیف الحدیث“ ہے۔ (تقريب التھذيب لابن حجر: 474) 

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفيه اسماعيل بن مسلم المكي، وضعف لكثره غل ووھمه . 
’’اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم المکی راوی موجود ہے۔ اسے اس کی بہت زیادہ غلطیوں اور وہم کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد للھيثمي:59/4)  

(2) عطاء رحمہ اللہ نےکہا: ام کرز اور ابوکریز بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: 
وليكن ذلك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي احدي وعشرين . 
’’عقیقہ ساتویں دن ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن۔‘‘ (المستدرك علي الصحيحين للحاكم : 239/4، 239، وقال : صحيح الاسناد، ووافقه الذھبي)

(تبصرہ :)
اس قول کی سند ’’انقطاع ‘‘ کی وجہ سے’’ضعیف ‘‘ہے۔
عطاء کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يسمع من أم كرز شيئا . 
’’انہوں نے ام کرز سے کچھ بھی نہیں سنا۔‘‘ (العلل لابن المديني : ص139) 

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : 
فان لم يذبح في اليوم السابع ذبح بعد ذلك حتي امكن فرضا . 
’’اگر ساتویں دن عقیقےکا جانور ذبح نہ کر سکے تو اس کے بعد جب بھی اس فرض کی ادائیگی پر وہ استطاعت رکھے ایسا کر لے۔‘‘ (المحلي لابن حزم:234/6)

(تبصرہ :)
اس قول پر کوئی دلیل نہیں اور وہ سب روایات جن میں ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا، ضعیف اور غیر ثابت شدہ ہیں۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات اور ناقابل عمل ہے۔ 

اسی طرح اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ نہیں ہو گا جبکہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا بھی عقیقہ واجب ہے۔ (المحلي لابن حزم:234/8) 

اور حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے کہ یہ ہمارے نزدیک مستحب ہے۔ (المجموع للنووي:448/8) 

یہ دونوں قول بھی مرجوح ہیں۔ عقیقہ کا تعلق زندگی سے ہے۔ دوسری طرف حدیث نے ساتویں دن کو بھی مقرر کر دیا ہے لہٰذا اصل سنت حاصل نہیں ہو گی۔ اسی طرح ولادت سے پہلے بھی عقیقہ جائز اور درست نہیں کیونکہ یہ عقیقہ کی سنت ایک سبب کے پیش نظر ادا کی جاتی ہے، وہ بچے کی پیدائش ہے۔ جب وہ سبب ہی نہ ہو گا تو سنت کیسے ادا ہو گی ؟ قربانی کی طرح عقیقہ رات کو بھی کیا جا سکتا ہے۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ساتویں دن عقیقہ کرنے کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں :
وحكمة هذا والله أعلم أن الطفل حين يولد يكون أمره متردداً بين السلامة والعطب، ولا يدري هل هو من أھل الحياة أم لا إلى أن تأتي عليه مدة يستدل بما يشاهد من أحواله فيها على سلامة بنيته وصحة خلقته وأنه قابل للحياة، وجعل مقدار تلك المدة أيام الأسبوع فإنه دور يومي كما أن السنة دور شهري … والمقصود أن هذه الأيام أول مراتب العمر، فإذا استكملها المولود انتقل إلى الثالثة وهي الشھور، فاذا استكملھا انتقل الي الثالثة وھي السنين، فما نقص عن ھذه الايام فغير مستوف للخليقة … فجعلت تسمية المولود وإماطة الأذى عنه وفديته وفك رهانه في اليوم السابع . 
’’اس کی حکمت، واللہ اعلم، یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا معاملہ سلامتی اور ہلاکت کے درمیان متردد ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ زندہ رہے گا یا نہیں۔ حتی کہ اس پر اتنی مدت گزر جائے کہ اسے دیکھنے والا اس کے حالات سے اس کی تخلیقی سلامتی، صحت اور اس کے زندگی کے قابل ہونے کا اندازہ کر سکے۔ اس مدت کی مقدار شریعت نے ایک ہفتہ مقرر کی کیونکہ ہفتہ، دنوں کا ایک مکمل چکر ہے جیسا کہ سال مہینوں کا ایک مکمل چکر ہوتا ہے۔۔۔ مقصود یہ ہے کہ یہ سات دن مراتب عمر میں سے پہلا مرتبہ ہیں۔ جب بچہ ان دنوں کو پورا کر لیتا ہے تو وہ دوسرے مرتبے میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ مہینے کی صورت میں ہوتا ہے اور جب وہ دوسرے مرتبے کی تکمیل کرتا ہے تو تیسرے مرتبے، یعنی سال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ جو بچہ ان مراتب میں سے کسی مرتبے کو پہنچ نہ پایا ہو، اس کی تخلیق مکمل نہیں ہوتی۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بچےکے نام کا تعین، اس سے گندگی کو دور کرنے (ختنہ کرنے اور سر منڈوانے ) ، اس کا فدیہ دینے اور اس کی گردن کو آزاد کرنے (عقیقہ کرنے ) کے لیے ساتواں دن مقرر کیا گیا۔“ (تحفة المودود لابن القيم:ص75، 76) 

صحیح حدیث لو !

 امام محمد بن یحییٰ ذُہلی رحمہ اللہ (م ۲۵۸ھ )فرماتے ہیں : 
لا يكتب الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يرويه ثقة عن ثقة حتى يتناهى الخبر إلى النبي صلى الله عليه وسلم بهذه الصفة، ولا يكون فيهم رجل مجهول، ولا رجل مجروح، فإذا ثبت الخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذه الصفة وجب قبوله والعمل به، وترك مخالفته . 
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ کوئی روایت اس وقت تک نہ لکھی جائے جب تک اسے ثقہ راوی اپنے جیسے ثقہ سے بیان کرے اور یہ سلسلہ یونہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے۔ اس کڑی میں کوئی مجہول یا مجروح شخص نہ ہو۔ جب کوئی حدیث اس طریقے سے ثابت ہو جائے تو اسے قبول کرنا، اس پر عمل کرنا اور اس کی مخالفت چھوڑ دینا واجب ہو جاتا ہے۔“ (الكفاية في علم الرواية للخطيب:36، وسنده صحيح)

السنہ جہلم شمارہ ۳۵، ص۲۷۔۳۱

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ایک تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے