سوال
ہمارے علاقے میں ایک کنویں، جس کا پانی قریباً آٹھ فٹ گہرا ہے، ایک نو یا دس سال کی لڑکی گر کر مر گئی، اور ڈیڑھ گھنٹے بعد نکالی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کنویں کا پانی پاک ہے یا پلید؟ اس مسئلے پر ہمارے درمیان سخت اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور اندیشہ ہے کہ بات لڑائی تک نہ پہنچ جائے۔ براہِ کرم جلد از جلد جواب فراہم کریں اور اگر ممکن ہو تو اسے تنظیم اہل حدیث میں شائع کر دیں۔
جواب
یہ سوال پہلے بھی آزاد کشمیر سے موصول ہوا تھا اور اس وقت تفصیلی جواب دیا گیا تھا۔ یہاں دوبارہ اس کا جواب پیش کیا جا رہا ہے:
کنویں کے پانی کی طہارت
کنویں کا پانی بالکل پاک ہے اور لڑکی کے مرنے سے اس کا پانی پلید نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان، خصوصاً مسلمان، زندہ ہو یا فوت شدہ، پاک ہی رہتا ہے۔ محدثین نے اس حوالے سے واضح باب باندھے ہیں کہ "مسلمان پلید نہیں ہوتا”۔
احادیث سے دلائل
صحیح بخاری: بخاری شریف میں باب منعقد کیا گیا ہے:
باب عرق الجنب وان المسلم لا ینجس
(یعنی جنبی کے پسینہ اور مسلمان کے ناپاک نہ ہونے کا بیان)۔
"عن أبی هریرة… ان المؤمن لا ینجس”
(بخاری مع فتح الباری، جلد ۲، صفحہ ۱۹۵)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان پلید نہیں ہوتا”۔
امام بخاری کا باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا:
باب غسل المیت ووضو بہٖ بالمائِ والسدر
(بخاری مع فتح الباری، جلد ۵، صفحہ ۶۵۲)
اس میں درج ہے کہ صحابہ کرام میت کو پاک سمجھتے تھے، جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"مسلمان زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں پلید نہیں ہوتا”۔
صحیح مسلم:
باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس
دلیل کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا
(مسلم، جلد ۱، صفحہ ۱۶۲)
حدیث: "ان المؤمن لا ینجس”۔
"بے شک مؤمن نجس نہیں ہوتا۔”
منتقیٰ و نیل الاوطار
منتقیٰ میں باب درج ہے:
"باب فی ان الآدمی المسلم لا ینجس بالموت ولا شعرہ”
یعنی مسلمان کا جسم، بال یا اعضاء موت کے بعد بھی پلید نہیں ہوتے۔
فقہی توضیح
امام نووی:
صحیح مسلم کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلمان کی زندگی اور موت میں طہارت کی اصل دلیل ہے۔
نیل الاوطار:
حدیث "المؤمن لا ینجس” مسلمانوں کی طہارت پر بنیادی دلیل ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا فوت شدہ۔
فقہاء کی آراء:
بعض فقہاء جیسے امام ابو حنیفہ اور مالک رحمہم اللہ، مسلمان میت کو نجس قرار دیتے ہیں، لیکن صحیح رائے یہ ہے کہ میت بھی پاک ہے، جیسا کہ صحابہ اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے ثابت ہے۔
پانی کی طہارت
اگر پانی دو قلّہ (پانچ مشک) یا زیادہ ہو، تو وہ پلید نہیں ہوتا۔
محدثین کے مطابق، دو قلّہ یا اس سے زیادہ پانی اپنے اندر نجاست کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
نتیجہ
کنویں کا پانی پاک ہے کیونکہ:
- لڑکی مسلمان تھی اور مسلمان زندہ یا مردہ دونوں حالتوں میں پاک ہوتا ہے۔
- پانی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ پلید نہیں ہوا۔
یہ فتویٰ قرآن و سنت اور محدثین و فقہاء کے اقوال پر مبنی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کنویں کا پانی طاہر اور استعمال کے قابل ہے۔
فتویٰ صادر کرنے والے
عبد اللہ روپڑی (تنظیم اہل حدیث، جلد ۱۷، شمارہ ۱۷)
تصدیق: علی محمد سعیدی (مہتمم جامعہ سعیدیہ، مغربی پاکستان خانیوال)