اسلام اور سیاست کے تعلق پر دو انتہاؤں والے نظریات
آج کے دور میں پائے جاتے ہیں۔ ان نظریات میں ایک طرف سیکولرزم ہے اور دوسری طرف وہ انتہا پسندانہ سوچ ہے جو سیاست کو اسلام کا اصل مقصد قرار دیتی ہے۔ یہ دونوں رویے افراط و تفریط پر مبنی ہیں اور اسلام کے متوازن نقطۂ نظر کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سیکولرزم کا نظریہ
سیکولرزم کے مطابق، اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح محض ایک ذاتی اور انفرادی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے میں دین کو صرف عقائد اور عبادات تک محدود رکھا گیا ہے، اور سیاست و حکومت کو اس سے بالکل الگ تصور کیا جاتا ہے۔
- پس منظر: یہ نظریہ عیسائی تھیوکریسی کی خرابیوں کے ردعمل میں وجود میں آیا اور سیکولر جمہوریت کے رواج کے بعد مقبول ہوا۔
- دینی حلقوں کا کردار: بعض مذہبی گروہوں نے اپنی سرگرمیاں محض عقائد، عبادات اور اخلاقیات کی اصلاح تک محدود رکھیں، اور سیاسی سرگرمیوں کو دین سے الگ قرار دیا۔ اس رویے نے بھی سیکولرزم کے نظریے کو تقویت دی۔
سیاست کو دین کا اصل مقصد قرار دینا
دوسری انتہا یہ ہے کہ بعض افراد نے سیاست کو دین کا اصل اور واحد مقصد قرار دے دیا۔ ان کے نزدیک:
- اسلام کا بنیادی مقصد صرف ایک عادلانہ سیاسی نظام قائم کرنا ہے۔
- دیگر تمام دینی اعمال جیسے اصلاحِ نفس، تعلیم و تبلیغ، یا اصلاحِ معاشرہ، سیاست کے ماتحت ہیں۔
- سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ کسی اور دینی کام میں مشغول رہنے والوں کو دین کے "اصل مقصد” سے غافل سمجھا جاتا ہے۔
اسلام کا متوازن نظریہ
اسلام کا پیغام زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ یہ صرف عقائد اور عبادات تک محدود نہیں بلکہ مالی معاملات، معاشرت، اور سیاست کے بارے میں بھی جامع ہدایات فراہم کرتا ہے۔ لیکن:
- سیاست دین کا مقصدِ اصلی نہیں: سیاست اسلام کا ایک حصہ ہے، مگر اس کو دین کا اصل مقصد قرار دینا درست نہیں۔
- مثال: جس طرح اسلام نے تجارت اور نکاح کے لیے اصولی ہدایات دی ہیں، مگر انہیں دین کا مقصدِ اصلی نہیں کہا جا سکتا، اسی طرح سیاست کو بھی دین کے ایک جزو کے طور پر سمجھنا چاہیے، نہ کہ مقصدِ اصلی۔
انسان کی تخلیق کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا:
"وما خلقت الجنّ والاِنس اِلّا لیعبدون”
(سورة الذاریات: 56)
ترجمہ: "اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔”
عبادت کا مفہوم
عبادت کا مطلب ہے اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت۔
- براہِ راست عبادتیں: جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ۔
- بالواسطہ عبادتیں: وہ اعمال جو دنیاوی فوائد کے لیے کیے جاتے ہیں، لیکن اللہ کی رضا کے لیے ان کو شریعت کے مطابق انجام دیا جائے تو وہ بھی عبادت بن جاتے ہیں، جیسے تجارت اور سیاست۔
سیاست کا مقام
اگر سیاست اللہ کے احکام کے مطابق اور اس کی رضا کے لیے کی جائے تو وہ عبادت بن سکتی ہے، لیکن یہ براہِ راست عبادت نہیں بلکہ بالواسطہ عبادت ہے۔ اس لیے اسے عباداتِ اصلیہ پر فوقیت دینا درست نہیں۔
سیاست کی اہمیت اور اس کے غلط تصورات
➊ سیاست اور دین کی ترجیحات
سیاست کو دین کا اصل مقصد سمجھنے سے دین کی دیگر اہم عبادات کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
"الّذین ان مكّنّاھم فی الاٴرض اٴقاموا الصّلوة وآتووا الزّكوٰة…”
(سورة الحج: 41)
ترجمہ: "یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔”
➋ عبادات کی اصل روح متاثر ہوتی ہے
سیاست کو دین کا واحد مقصد سمجھنے سے عبادات کو محض سیاسی فوائد کے لیے ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جیسے:
- نمازِ باجماعت کو اجتماعی نظم کے لیے۔
- روزہ کو مشکلات سہنے کی تربیت کے لیے۔
- حج کو عالمی مسلم کانفرنس کے لیے۔
یہ تصورات عبادات کی اصل روح، یعنی اللہ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کی رضا کے لیے اعمال کرنے، کو کمزور کرتے ہیں۔
➌ دیگر دینی شعبوں کی اہمیت کو کم سمجھنا
جو لوگ اصلاحِ نفس، تبلیغ، یا دینی تعلیم جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں، انہیں دین کے "اصل مقصد” سے غافل تصور کیا جاتا ہے۔
تصوف، طریقت، اور فضائلِ اعمال پر مشتمل کتب کو غیر اہم یا گمراہ کن قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ دین کے اہم پہلو ہیں۔
➍ انبیاء کا مشن
اگر سیاست کو دین کا اصل مقصد مان لیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیادہ تر انبیاء (علیہم السلام) دین کے مقصد کو پورا کرنے میں ناکام رہے، کیونکہ صرف چند انبیاء نے سیاسی حکومت قائم کی۔
خلاصہ
سیاست اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے، لیکن اسے دین کا واحد یا اصل مقصد قرار دینا غلط ہے۔
دین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں پر مشتمل ہے، اور تمام احکام پر عمل ضروری ہے۔
دین کی جدوجہد میں مختلف افراد مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں، اور ان سب شعبوں کی اپنی اہمیت ہے۔
کسی ایک شعبے کو دین کا مکمل یا واحد مقصد سمجھنا، یا دوسرے شعبوں کو کم اہمیت دینا افراط و تفریط ہے۔