اسلام میں حکمران کی معزولی کے اصول
پُرامن معزولی
کسی حکمران کو پرامن طریقے سے معزول کرنے کے درج ذیل اسباب ہو سکتے ہیں:
➊ حکمران کا استعفیٰ
اگر حکمران خود فیصلہ کرے کہ وہ ذمہ داریاں مزید نہیں نبھا سکتا اور استعفیٰ دے دے تو وہ معزول تصور ہوگا۔
➋ حکمران کی نااہلی
اگر کسی جسمانی یا ذہنی بیماری، جیسے پاگل پن، یا کسی ایسی حالت کی وجہ سے حکمران اپنے فرائض انجام نہ دے سکے تو اسے معزول کیا جا سکتا ہے۔
➌ فسق یا ظلم کا ارتکاب
اگر حکمران کھلے عام فسق و فجور، جیسے شراب نوشی، رشوت لینا، یا غیر شرعی ٹیکس لگانے جیسے اعمال کرے، تو اسے پرامن ذرائع سے معزول کرنا واجب ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی حکمران کو بغیر کسی فتنہ و فساد کے معزول کیا جا سکتا ہو تو اسے ہٹانا واجب ہے۔ بصورت دیگر صبر کرنا بہتر ہے۔‘‘
(فتح الباری، کتاب الفتن، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلاک امتی الخ، ج 13، ص 8)
➤ عوامی ناپسندیدگی
اگر حکمران کی پالیسیاں ریاست کے مفاد میں نہ ہوں اور عوام اسے ناپسند کریں، تو شوریٰ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسے معزول کر دے۔ اگر حکمران کے انتخاب کے وقت کوئی مدت مقرر کی گئی ہو تو مدت کے اختتام پر حکمران از خود معزول ہو جائے گا۔
مسلح بغاوت یا خروج
خانہ جنگی کی مذمت
اسلامی تعلیمات میں خانہ جنگی کو بدترین برائی سمجھا گیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
’’تمہارے خون، مال اور عزت کی حرمت ایسے ہی ہے جیسے تمہارے اس دن، اس مہینے اور اس شہر کی حرمت ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، حدیث 4406؛ صحیح مسلم، حدیث 4351)
مسلح بغاوت کی ممانعت
رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے درمیان خونریزی سے بچنے کے لیے حکمران کے خلاف مسلح بغاوت سے منع کیا، چاہے حکمران فسق کا ارتکاب کرے یا ظلم کرے۔ البتہ، اگر حکمران واضح کفر (کفرِ بواح) کا مرتکب ہو جائے اور اس پر اللہ کی جانب سے واضح دلیل موجود ہو، تو مسلح خروج جائز ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جب تک کھلا کفر نہ دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی دلیل موجود ہو، حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرو۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث 7056)
مسلح خروج کی شرائط
➊ حکمران کا کفر بالکل واضح ہو۔
➋ اس بات پر اجماع ہو کہ حکمران نے کفر کیا ہے۔
➌ حکمران کو ہٹانے کی طاقت موجود ہو۔
➍ حکمران کو ہٹانے کے بعد فتنہ یا خانہ جنگی کا اندیشہ نہ ہو۔
سیاسی تحریکیں اور احتجاج
مغربی سیاسی طرزِ عمل
آج کل احتجاج، ہڑتال، اور جلوس جیسے طریقے مغربی سیاسی نظام سے مستعار لیے گئے ہیں، جن کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال کر مطالبات منوائے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں احتجاج اور دباؤ ڈالنے کے یہ طریقے مخصوص شرائط کے تحت ہی جائز ہیں۔
حرام اور ناجائز طریقے
➊ بھوک ہڑتال: ایسی ہڑتال جو خودکشی کے قریب ہو، ناجائز ہے۔
➋ توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچانا: سرکاری املاک پوری قوم کی اجتماعی ملکیت ہیں، اور ان کا نقصان پوری قوم کے حق کو پامال کرتا ہے۔
جائز ہڑتال کی شرائط
➊ کاروبار بند رکھنے کی اپیل پر جبر نہ کیا جائے۔
➋ انسانی ضروریات جیسے مریضوں کے علاج وغیرہ کے لیے استثناء موجود ہو۔
➌ کسی کو زبردستی ہڑتال میں شامل نہ کیا جائے۔
جلوس اور مظاہرے
اگر جلوس یا مظاہرہ پُرامن ہو اور عوام کو تکلیف نہ پہنچائے تو یہ جائز ہے، لیکن آج کل اکثر جلوسوں میں توڑ پھوڑ اور امن و امان میں خلل پیدا ہوتا ہے، جو کہ ناجائز ہے۔
شریعت میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ
اسلام میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کا بہترین اور پرامن طریقہ یہ ہے:
"لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق”
یعنی ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘
خلاصہ
اسلام میں حکمران کو معزول کرنے کے لیے پرامن اور شرعی طریقے موجود ہیں۔ مسلح بغاوت صرف کھلے کفر کی صورت میں اور مخصوص شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے پرامن اور شرعی طریقے اپنانا ضروری ہے، جیسے غیر اسلامی احکامات کی تعمیل سے انکار۔ توڑ پھوڑ اور جبر جیسے اقدامات اسلام میں ممنوع ہیں۔