اعتراض
آج کل ایک عمومی پروپیگنڈا یہ کیا جا رہا ہے کہ مذہب کی بنیاد خوف اور لالچ پر ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مذہب انسان کو خوفزدہ کرتا ہے کہ اگر اس کے احکامات کو نہ مانا گیا تو انسان ایک بدترین انجام سے دوچار ہوگا، اور دوسری طرف بڑے انعامات کا لالچ دے کر اپنی اطاعت کا پابند بناتا ہے۔ اس اعتراض کا بنیادی ہدف مذہب کو ایک استحصالی نظام کے طور پر پیش کرنا ہے۔
اسلام میں سزا و جزا کا تصور
چونکہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے اس موضوع کو اسلامی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان لوگوں کے لئے سخت سزا کی وعید دی گئی ہے جو اللہ کے احکامات کو رد کرتے ہیں اور کفر اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح ایمان اور نیک اعمال کے حامل افراد کے لئے جنت اور اللہ کی رضا جیسے انعامات کا ذکر بھی موجود ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو بنیاد بنا کر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام بھی انسان کو خوفزدہ کرنے اور انعام کا لالچ دینے پر مبنی ہے۔
خوف اور لالچ کا منطقی اور اخلاقی جواز
عام زندگی کی مثالیں:
- قانون کی پابندی: اگر کوئی قانون توڑے تو سزا کا خوف دلایا جاتا ہے۔ یہ خوف لوگوں کو قانون پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
- کمپنی کا نظام: ایک سیلزمین کو زیادہ سیلز پر بونس یا کمیشن کا لالچ دیا جاتا ہے، اور ناکامی کی صورت میں نوکری جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
- تعلیمی نظام: ایک طالب علم کو محنت سے پڑھائی کا کہا جاتا ہے تاکہ وہ فیل نہ ہو اور بہتر کارکردگی پر انعام ملے۔
یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ خوف اور لالچ کا استعمال اخلاقی اور منطقی جواز رکھتا ہے، اور کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ لیکن جب یہی اصول مذہب میں استعمال ہوتے ہیں تو سوال اٹھایا جاتا ہے۔
اعتراض کی بنیادی وجہ
اس اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیاوی معاملات جیسے قانون، تعلیم اور ملازمت کے لئے خوف و لالچ کے استعمال کو منطقی مانتے ہیں، لیکن مذہب میں یہی بات انہیں غیرمنطقی لگتی ہے۔ درحقیقت، مذہب بھی ان اصولوں کو اس وقت استعمال کرتا ہے جب اس کے اخلاقی اور منطقی دلائل کو نظر انداز کیا جائے۔
اسلام کا منطقی اور اخلاقی مقدمہ
اسلام خوف اور طمع کی بنیاد پر انسان کو پابند بنانے سے پہلے اپنا اخلاقی اور منطقی مقدمہ پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید انسان کی عقل، ضمیر، فطرت اور تاریخ کو گواہ بنا کر اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی فرد اس دعوت کو رد کرتا ہے تو اسے سرکشی قرار دیتے ہوئے انجام کی خبر دی جاتی ہے، اور ماننے والوں کے لئے انعامات کی خوشخبری دی جاتی ہے۔
سزا و جزا: اللہ کے عدل کا تقاضا
اسلام میں سزا اور جزا عدل الٰہی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اعتراض کرنے والے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیاوی نظام میں قانون توڑنے والوں کو سزا دی جانی چاہئے، ناکام طالب علم کو فیل کیا جانا چاہئے، اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے ملازم کو فارغ کر دینا چاہئے۔ لیکن جب یہی اصول اللہ کے نظام میں لاگو ہوتے ہیں تو ان پر اعتراض کیا جاتا ہے، جو ایک غیرمنطقی رویہ ہے۔
خوف اور طمع کا اعتراض: ایک غیرمنطقی دعویٰ
اسلام پر اعتراض کرنے والے سیکولر افراد اور ملحدین اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات خوف اور طمع سے پہلے ایک اخلاقی و منطقی بنیاد پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی فرد اسلام کی منطقی بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتا تو اسے انہی بنیادوں پر اعتراض کرنا چاہئے، نہ کہ یہ دعویٰ کرنا کہ اسلام صرف خوف اور طمع کے ذریعے عمل کرواتا ہے۔
ملحدین کے اعتراض کی کمزوری
- اسلام کے انعامات اور وعیدیں ان افراد پر اثر انداز ہوتی ہیں جو اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔
- جو اسلام کو نہیں مانتے، وہ ان وعیدوں اور خوشخبریوں پر یقین نہیں رکھتے۔
- لہٰذا، اگر کسی پر ان باتوں کا اثر ہو رہا ہے، تو یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسلام کی منطقی اور اخلاقی بنیادوں کو کسی حد تک تسلیم کرتا ہے۔
نتیجہ
اسلام میں خوف اور لالچ کی بنیاد ضرور موجود ہے، لیکن یہ اس کے منطقی اور اخلاقی مقدمے کے بعد آتی ہے۔ اعتراض کرنے والے اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں اور اسلام کو اندھا دھند خوف و لالچ پر مبنی مذہب قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو ایک گمراہ کن دعویٰ ہے۔