موجودہ نظام انتخابات کا عمومی رجحان
آج کے دور میں جو نظام انتخابات رائج ہے، وہ عمومی طور پر قابل قبول اور عالمی طور پر تسلیم شدہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کے متبادل کسی نئے نظام کو اپنانے کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ اگر تعصبات اور روایتی دباؤ سے آزاد ہوکر غور کیا جائے تو دیگر طریقے بھی ممکن اور قابل عمل ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں انتخابات کے لئے مختلف نظام رائج ہیں، جیسے:
- متناسب نمائندگی کا نظام
- دو مرتبہ انتخابات (Second Ballot)
- قابل انتقال ووٹ (Transferable Vote)
لہٰذا، کسی ایک نظام کو ہی قطعی اور حتمی مان لینا درست نہیں ہے۔
ایک نیا انتخابی نظام: امیدوار کی بجائے عوام کی تجویز
عوامی تجاویز کی بنیاد پر امیدوار
- عوام کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے حلقے کے لئے نمائندے خود تجویز کریں۔
- امیدوار کے لئے تعلیمی قابلیت، کردار، سماجی خدمات اور عملی تجربے جیسی اہلیت کو طے کیا جائے۔
- تجویز شدہ شخص کا نام اس وقت منظور کیا جائے جب ایک مخصوص تعداد (مثلاً 500 یا 1000 افراد) نے اس کی حمایت کی ہو۔
تصدیق کا عمل
- الیکشن کمیشن اس بات کی تصدیق کرے کہ تجویز کرنے والے واقعی اسی حلقے کے افراد ہیں اور ان کی تعداد مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہے۔
- نامزد شخص کی طے شدہ صفات کی جانچ بھی کی جائے۔
تشہیر کا غیر جانبدارانہ طریقہ
- امیدوار اپنی تشہیر پر رقم خرچ کرنے یا وعدے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کے ذریعے عوام میں متعارف ہو۔
- میڈیا کے ذریعے ان کے انٹرویوز نشر کیے جائیں، تاکہ عوام ان کی قابلیت اور دیانت سے واقف ہوسکیں۔
موجودہ انتخابی نظام کی خرابیوں کا تجزیہ
- آج کے انتخابات میں امیدوار خود اپنی تشہیر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں اور عوام کو جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔
- صرف وہی امیدوار میدان میں آسکتے ہیں جن کے پاس سرمایہ موجود ہو۔
- متوسط طبقے کا ایک دیانتدار شخص انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
- کامیاب ہونے والے افراد اکثر اپنی خرچ کی ہوئی رقم کرپشن کے ذریعے واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجوزہ نظام کے فوائد
- غیر جانبدارانہ تشہیر: الیکشن کمیشن کے ذریعے امیدوار کی دیانتداری اور قابلیت کو سامنے لایا جائے۔
- انتخابی دباؤ کا خاتمہ: پولنگ اسٹیشنز پر بننے والے کیمپس اور ووٹروں پر ڈالے جانے والے دباؤ کو ختم کیا جائے۔
- صاف شفاف انتخابات: ہر امیدوار کو برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
انتخابی حلقوں کا موجودہ نظام اور اس کی اصلاح
ہمارے ملک میں موجودہ انتخابی حلقے کا نظام "ایک رکنی حلقہ” پر مبنی ہے، جس میں بعض اوقات زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار بھی عوام کی اکثریتی حمایت سے محروم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
- اگر کسی حلقے میں 10 امیدوار ہوں اور 9 کو ایک ایک ہزار ووٹ ملیں، جبکہ 10ویں امیدوار کو 2000 ووٹ ملیں، تو وہ جیت جائے گا۔
- حالانکہ 9000 افراد نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
بہتری کے لئے تجاویز
- حلقے بڑے بنا کر کثیر رکنی انتخابی نظام اپنایا جائے۔
- زیادہ ووٹ لینے والے متعدد افراد کو منتخب کیا جائے۔
اسلامی اصول اور شورائیت کا نظام
اسلام نے امیر کی مدد اور رہنمائی کے لئے شورائیت کا نظام دیا ہے، جو منتخب نمائندوں کے ساتھ دیانتدار اور تجربہ کار ماہرین کی ٹیموں پر مشتمل ہو۔
شورائیت کا دائرہ کار:
- مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی، ضلعی اور گاؤں کی سطح تک اس کا اطلاق ہو۔
- فوری اور مؤثر فیصلوں کے لئے شورائی ٹیمیں ہر وزیر کے ساتھ موجود ہوں۔
اسلام نے اصول فراہم کیے ہیں، جیسے:
- اقتدار کی طلب سے منع کرنا
- شورائیت کو اپنانا
- تفصیلات کا تعین اہل بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ان اصولوں کو عملی شکل دی جا سکے۔
نتیجہ
انتخابات کے نظام میں اصلاحات لانے کے لئے اسلامی اصولوں کی روشنی میں مذکورہ تجاویز قابل عمل اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔ امیدواروں کی نامزدگی، تشہیر اور انتخاب کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنایا جا سکتا ہے، تاکہ دیانتدار اور اہل افراد حکومت تک پہنچ سکیں۔